حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
ماہانہ اجرت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار Home / بلاگز /

ماہانہ اجرت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار

انورزادہ گلیار

ماہانہ اجرت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار

ریاست کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے قوانین مرتب کرے جن سے شہریوں کی زندگی سہل ہو اور معاشی انصاف قائم رہے۔ ہماری حکومت بھی وقتاً فوقتاً مختلف قوانین وضع کرتی ہے اور ان کے نفاذ کے لیے نوٹیفیکیشن جاری کرتی ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اکثر یہ اقدامات محض کاغذی کارروائی تک محدود رہ جاتے ہیں۔ عملی زندگی میں ان کے ثمرات عوام تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔
حالیہ مثال کم از کم ماہانہ اجرت کی ہے۔ حکومت نے چالیس ہزار روپے تنخواہ مقرر کرنے کا اعلان کیا اور باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا۔ بظاہر یہ قدم مزدوروں اور کم آمدنی والے ملازمین کے لیے ایک ریلیف پیکیج تھا، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فیکٹریوں، ہوٹلوں، ورکشاپوں اور نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں محنت کش آج بھی اس حق سے محروم ہیں۔ بیشتر مالکان اپنی مرضی کی اجرت طے کرتے ہیں، جو نہ صرف مقررہ کم از کم اجرت سے کم ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر قوانین پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے اس قانون کے نفاذ کے لیے کوئی مضبوط نگرانی کا نظام نہیں بنایا۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار یا تو تعداد میں قلیل ہیں یا پھر وہ سیاسی دباؤ اور بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب مزدور طبقہ اپنے حقوق کے بارے میں شعور سے محروم ہے۔ اکثر محنت کش یہ نہیں جانتے کہ قانون ان کے لیے کیا سہولتیں فراہم کرتا ہے، اور جو جانتے ہیں وہ بھی بے روزگاری کے خوف سے اپنی آواز بلند نہیں کر پاتے۔
ادھر نجی ادارے اپنی معاشی مشکلات کو جواز بنا کر کم اجرت کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر مزدور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہی نہ ہو تو پھر وہ کس طرح معاشرے میں مثبت کردار ادا کرے گا؟ آج مزدور کی جیب خالی ہے، اس کے گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے اور اس کے بچوں کی تعلیم خواب بن چکی ہے۔ ایسے میں چالیس ہزار روپے کی اجرت کا نوٹیفیکیشن محض ایک خوشنما اعلان لگتا ہے، جس کی روشنی مزدور کی زندگی تک نہیں پہنچ پاتی۔
اس مسئلے کا حل واضح ہے: حکومت محض اعلانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنایا جائے، ہر ضلع میں کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو نجی اداروں اور فیکٹریوں کا باقاعدہ معائنہ کریں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور سزائیں دی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدور تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کریں اور قانونی جدوجہد کا راستہ اپنائیں۔
اگر حکومت واقعی محنت کش طبقے کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے کاغذی نوٹیفیکیشن سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ایک مزدور جب اپنے بچوں کو تعلیم اور اپنے گھر والوں کو باعزت زندگی دینے کے قابل ہوگا، تبھی وہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ بھرپور انداز میں ڈال سکے گا۔ بصورت دیگر قوانین اور نوٹیفیکیشن محض فائلوں اور اخباری سرخیوں تک محدود رہیں گے، جبکہ غربت اور محرومی کا اندھیرا محنت کش طبقے کے گھروں کو مزید گھیر لے گا