(ویلری زینک)
خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے وابستہ کینیڈین فوٹوگرافر "ویلری زینک" ادارے سے مستعفی۔ اپنے استعفے کے ساتھ انہوں نے دجالی ذرائع ابلاغ کا گھناؤنا چہرہ بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
آٹھ برس تک میرا کیمرہ حقیقت کی آنکھ بنا رہا۔ پریری صوبوں کی خاموش وادیوں سے لے کر شہروں کی ہلچل تک، میں نے رائٹرز کے لیے وہ لمحے قید کیے جو انسان اور زمین کی کہانی سناتے تھے۔ میری تصاویر نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دنیا کے بڑے اخبارات و جرائد میں شائع ہوئیں۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن مجھے قلم اور کیمرہ دونوں کو احتجاج کی زبان میں بدلنا پڑے گا۔ مگر آج، جب مغربی میڈیا غزہ میں 245 سے زائد صحافیوں کے قتلِ عام کو جواز فراہم کرنے میں شریکِ جرم ہے، تو میرے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں رہا۔
10 اگست کا دن میری یادداشت پر ہمیشہ کے لیے کندہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر میں ہمارے ساتھی انس الشریف کو شہید کیا، وہی انس، جس کی تصویریں اور رپورٹنگ نے رائٹرز کو پلٹزر انعام دلوایا تھا۔ لیکن رائٹرز نے ان کے قتل پر نہ احتجاج کیا، نہ سچ بیان کیا۔ الٹا اسرائیل کا یہ جھوٹ چھاپا کہ "انس ح م ا س کا رکن تھا"۔ یہ محض ایک الزام نہیں تھا، یہ اس طرزِ عمل کی نشانی تھی جس میں اسرائیلی پروپیگنڈا مغربی میڈیا کی زبان پر چڑھا کر دنیا کے سامنے بیچا جا رہا ہے۔
صحافت کی اصل روح سچائی ہے، لیکن رائٹرز اور دیگر ادارے جھوٹ کی ترسیل کے محض آلے بن گئے ہیں۔ الجزیرہ کے پورے عملے کے ساتھ انس الشریف کو شہید کرنے کے بعد بھی رائٹرز نے خاموشی اختیار کی۔ آج ناصر اسپتال پر ڈبل ٹیپ حملے میں جب 20 بے گناہ افراد کے ساتھ ہمارے ساتھی حسام المصری اور پانچ مزید صحافی شہید ہوئے، تو مجھے احساس ہوا کہ یہ ادارے اب قاتل کی زبان بول رہے ہیں، مقتول کی نہیں۔
جیریمی سکاہل نے درست کہا ہے کہ مغربی میڈیا نیویارک ٹائمز سے لے کر واشنگٹن پوسٹ تک، اے پی سے رائٹرز تک اسرائیلی پروپیگنڈا دہرا رہا ہے، جنگی جرائم کو دھو کر پیش کر رہا ہے، متاثرین کو غیر انسانی مخلوق بنا رہا ہے اور اپنے ہی صحافیوں کے خون پر خاموشی اختیار کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف دو برسوں میں غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی پر اتنے صحافی شہید ہو چکے ہیں جتنے تاریخ کی کسی بڑی جنگ میں بھی نہیں ہوئے۔
انس الشریف نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دنیا کو دکھایا کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے۔ وہی انس جس نے اپنے کیمرے کے ذریعے زندہ تاریخ لکھی۔ لیکن جب اسرائیل نے انہیں "ہٹ لسٹ" میں ڈال دیا، تو رائٹرز خاموش رہا۔ جب انہوں نے اپنی زندگی بچانے کے لیے دنیا سے اپیل کی، رائٹرز پھر بھی خاموش رہا اور جب انہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر شہید کیا گیا تو رائٹرز نے ان کی سچائی کو بھی دفن کر دیا۔
میں نے رائٹرز کے لیے جو آٹھ سال دیئے، ان پر کبھی ندامت نہیں تھی۔ لیکن اب یہ ادارہ میرا فخر نہیں، میرا بوجھ ہے۔ اس کا پریس پاس میرے لیے صحافت کی نہیں، شرمندگی کی علامت ہے۔ میں اپنے فلسطینی ساتھیوں کی مقروض ہوں، کم از کم اتنا کہ ان کی قربانی کو فراموش نہ ہونے دوں۔
غزہ کے یہ بے مثال صحافی ہماری پیشہ ورانہ تاریخ کے سب سے روشن ستارے ہیں۔ ان کے خون سے تحریر ہوئی یہ کہانی آنے والی نسلوں کو بتائے گی کہ جب عالمی میڈیا نے جھوٹ کے علمبردار بننے کا انتخاب کیا، تب غزہ کے گمنام صحافی سچائی کی بقا کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔
میں یہ نہیں جانتی کہ ان قربانیوں کا حقیقی احترام کیسے ادا ہو سکتا ہے، مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اب سے میرا ہر کام اسی عزم سے جڑا ہوگا کہ ان شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھا جائے اور صحافت کے اصل مقصد یعنی سچائی کو پھر سے دنیا کے سامنے لایا جائے۔