حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
عالمی شہرت یافتہ جج فرینک کیپریو، زندگی کی عدالت میں ہار گئے Home / بلاگز /

عالمی شہرت یافتہ جج فرینک کیپریو، زندگی کی عدالت میں ہار گئے

عظمت خان داٶدزئی

عالمی شہرت یافتہ جج فرینک کیپریو، زندگی کی عدالت میں ہار گئے

امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ جج فرینک کیپریو 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

امریکی میڈیا کے مطابق وہ کچھ عرصے سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے اور اسی بیماری نے بالآخر اُن کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں دکھ اور افسوس کی لہر دوڑ گئی۔

فرینک کیپریو اپنے منفرد اندازِ انصاف اور رحم دل فیصلوں کی بدولت دنیا بھر میں مشہور تھے۔

عام طور پر عدالتیں لوگوں کے لیے خوف اور سختی کی علامت سمجھی جاتی ہیں لیکن کیپریو کی عدالت میں داخل ہونے والا ہر شخص ایک عجیب سا سکون اور اپنائیت محسوس کرتا۔ وہ ملزم سے سخت لہجے میں نہیں بلکہ دوستانہ انداز میں بات کرتے، اُس کے حالات دریافت کرتے اور پھر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا فیصلہ سناتے جو انصاف کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی عکاس ہوتا۔

ایک موقع پر 96 سالہ بزرگ اپنے بیمار بیٹے کو اسپتال لے جانے کے دوران ٹریفک جرمانے میں پھنس گئے۔ جب وہ جج کے سامنے پیش ہوئے تو فرینک کیپریو نے احترام سے کہا:

“آپ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی اپنے بیٹے کا سہارا ہیں۔ اس جرم میں آپ پر کوئی جرمانہ نہیں بلکہ ہم آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔”

یہ لمحہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو اشکبار کر گیا۔

ایک اور واقعے میں ایک ماں نے درخواست کی کہ اُس پر عائد ٹریفک جرمانہ قسطوں میں ادا کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ بچوں کو پڑھا رہی ہے۔ جج کیپریو نے نہ صرف جرمانہ معاف کیا بلکہ کہا:

“آپ اپنے بچوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔”

ایک دلچسپ موقع پر ایک بچہ اپنے والد کے ساتھ عدالت آیا۔ جج کیپریو نے مسکراتے ہوئے اُس بچے کو کہا کہ آج فیصلہ تم سناؤ۔ بچے نے معصومیت سے کہا:

“میرے ابو کو معاف کر دیں۔”

اور جج نے ہنستے ہوئے اسی فیصلے پر دستخط کر دیے۔ یہ منظر دنیا بھر میں وائرل ہوا۔

جج کیپریو کا ماننا تھا کہ انصاف صرف قانون کے صفحات پر لکھی سطور کا نام نہیں بلکہ انسان کے حالات اور اس کی مجبوریوں کو سمجھنا بھی انصاف کا حصہ ہے۔

وہ کہا کرتے تھے:

“اگر آپ لوگوں کے حالات کو سمجھے بغیر فیصلہ کریں گے تو آپ انصاف کو ادھورا چھوڑ دیں گے۔”

ان کا یہ طرزِ انصاف ایک نئی تعریف بن گیا۔ انہوں نے دکھایا کہ قانون اور ہمدردی ساتھ ساتھ چل سکتے

ان کی عدالت کی ویڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہوئیں۔ یوٹیوب اور فیس بک پر اُن کی موجودگی نے انہیں ایک عوامی جج بنا دیا۔ پاکستان، بھارت، یورپ اور عرب دنیا تک لوگ اُن کے فیصلوں سے متاثر ہوئے۔ لاکھوں افراد نے اُنہیں “رحم دل جج” اور “انسانیت کا سفیر” قرار دیا۔

جج کیپریو کے انتقال پر امریکی عدلیہ اور عوام نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے صارفین نے ان کے لیے دعائیں اور تعریفی پیغامات لکھے۔

کئی مشہور شخصیات نے کہا کہ:

“ہم نے ایک ایسا جج کھو دیا ہے جس نے ہمیں سکھایا کہ انصاف کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی ضروری ہے۔”

فرینک کیپریو کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہر انسان کو ایک دوسرا موقع ملنا چاہیے۔

انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عدالت کا مقصد صرف سزا دینا نہیں بلکہ لوگوں کو بہتر انسان بننے کی راہ دکھانا بھی ہے۔

ان کا نام ہمیشہ اس جملے کے ساتھ یاد رکھا جائے

“انصاف زندہ تب ہوتا ہے جب آپ دوسروں کے حالات کو سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔”

یہ تحریر ایک خراجِ تحسین ہے ایک ایسے جج کے لیے جس نے اپنی عدالت کو قانون کے ساتھ ساتھ انسانیت کا مسکن بنا دیا۔