حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
پردیسی مسافر "محنت کش کا پسینہ وطن کے لیٸے ،کرپٹ اور لوٹی دولت بیرونی ممالک Home / بلاگز /

پردیسی مسافر "محنت کش کا پسینہ وطن کے لیٸے ،کرپٹ اور لوٹی دولت بیرونی ممالک

عظمت خان داٶدزئی

پردیسی مسافر

یہ میرا ملک ہے، میری ریاست ہے، جسے ہم ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم نے اس ماں کے ساتھ اولاد جیسا سلوک کیا ہے؟ یا ہم نے اس کے وجود کو اپنی ذاتی خواہشات اور لالچ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے؟

یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے عہدوں پر وہی لوگ قابض ہیں جو اپنی جوانی اور بڑھاپے کے تمام دن ریاست کے وسائل پر گزار دیتے ہیں۔ وہ اعلیٰ مراعات لیتے ہیں، پینشنیں اور پرکشش سہولتیں حاصل کرتے ہیں، اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی حکومتی اداروں پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔ وہ ادارے جنہیں وہ مضبوط کرنے کے پابند ہوتے ہیں، انہی اداروں کو کمزور کر کے چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی کرپشن اور نااہلی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے، اور پھر یہ لوگ بڑھاپے میں اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرونی ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہیں کے محل نما گھروں میں آخری عمر گزارتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں کفن میں لپٹی ہوئیں وطن واپس آتی ہیں۔ خوش قسمت وہ ہیں جنہیں یہ زمین اپنی آغوش میں دفن کر لیتی ہے، ورنہ اکثر کا مقدر پردیس کی مٹی میں دفن ہونا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس ذرا ان پاکستانی محنت کشوں کو دیکھیے جنہوں نے اپنی جوانی کے قیمتی دن پردیس کی سختیوں میں گزارے۔ وہ صبح سے شام تک دھوپ میں جل کر، فیکٹریوں میں مشقت کر کے، مزدوری کر کے ڈالر اور ریال کماتے ہیں اور پھر یہ خون پسینے کی کمائی پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ یہی زرمبادلہ پاکستان کی معیشت کا سہارا بنتا ہے۔ مگر افسوس کہ ان کی قربانیاں ریاستی ایوانوں میں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت سے محروم رہتے ہیں، اپنے والدین کی خدمت سے دور رہتے ہیں، بیوی اور گھر کے سکون کو ترستے رہتے ہیں۔ ان کی جوانی قربان ہو جاتی ہے مگر جب وہ بڑھاپے میں وطن لوٹتے ہیں تو ساتھ بیماریاں، کمزور جسم، بوڑھی آنکھیں اور اکثر نکمی اولاد لے کر آتے ہیں۔

ریاستی ملازم کو پچیس سال کے بعد پینشن ملتی ہے، سہولتیں ملتی ہیں، گھر اور پلاٹ ملتے ہیں۔ لیکن ایک محنت کش پردیسی کو پچیس سال کے بعد کیا ملتا ہے؟ صرف تھکن، اجڑی ہوئی فیملی اور وہ معاشرہ جو اسے بھلا چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ جن حکمرانوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے، وہ بیرون ملک سے قرض لیتے ہیں، مگر یہ قرض عوام کی زندگی آسان کرنے پر نہیں بلکہ اپنی تجوریاں بھرنے پر لگاتے ہیں۔ پھر وہی پیسہ اٹھا کر دوبارہ انہی ملکوں میں سرمایہ کاری کر دیتے ہیں۔ یوں ہمارے ملک پر قرض چڑھتا ہے، اور غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ عوام وہ ہیں جو کبھی قرض لیتے ہی نہیں، مگر قرض کی قسطیں ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان محنت کش پاکستانیوں کے لیے کیا کوئی پالیسی ہے؟ کیا ان کے لیے کوئی ریٹائرمنٹ فنڈ ہے؟ کوئی پینشن اسکیم ہے؟ کوئی میڈیکل سہولت یا تعلیمی سہارا ہے؟ کیا ان کے بچوں کے لیے کوئی ضمانت ہے کہ وہ بھی بہتر مستقبل پا سکیں؟ جواب ہمیشہ ایک ہی آتا ہے: ’’نہیں‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ محنت کش زرمبادلہ نہ بھیجیں تو ہماری معیشت کب کی ڈوب چکی ہوتی۔ بڑے سرمایہ دار اور سیاست دان تو اپنی دولت باہر منتقل کر رہے ہیں، مگر یہی پردیسی مزدور ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی یہاں بھیجتے ہیں۔ یہ اصل محبِ وطن ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ریاست انہیں کبھی اہمیت نہیں دیتی۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم واقعی ریاست کو ماں مانتے ہیں تو پھر اپنے ان سپوتوں کو بھی تسلیم کریں جنہوں نے اپنی جوانی کی خوشیاں قربان کر کے اس ماں کی جھولی بھری۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور ادارے پردیسی محنت کشوں کے لیے باقاعدہ ویلفیئر سسٹم بنائیں۔ ان کے لیے پینشن کا نظام متعارف کروایا جائے، ان کے بچوں کے لیے تعلیمی وظائف دیے جائیں، ان کے علاج معالجے کا بندوبست کیا جائے۔ یہ وہ اقدام ہیں جو اس بات کو ثابت کریں گے کہ ہم اپنی ریاست سے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی محبت کرتے ہیں۔

ورنہ یہ تضاد ہمیشہ قائم رہے گا کہ مراعات یافتہ طبقہ مزے لوٹتا رہے اور محنت کش پردیسی اپنی قربانیوں کے باوجود نظرانداز ہوتا رہے۔ یہ ناانصافی صرف ان مزدوروں کے ساتھ نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ ہے، کیونکہ جس معاشرے میں قربانی دینے والوں کو عزت نہ ملے، وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔