تحریر: عبدالغفار خان
ٹرینیڈاڈ کے تاریخی برائن لارا اسٹیڈیم میں پاکستانی شاہینوں نے اپنے پہلے ہی ون ڈے میں ویسٹ انڈیز کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز کا شاندار آغاز کیا۔ یہ کامیابی محض اسکور بورڈ پر درج دو پوائنٹس نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کے عزم، حکمتِ عملی اور مستقبل کی مضبوط بنیاد کا اعلان ہے۔
ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا انتخاب کیا، اور ابتدا میں ان کا فیصلہ درست محسوس ہوا، مگر شاہین شاہ آفریدی کی تیز اور سوئنگ کرتی گیندوں نے میزبانوں کا اعتماد متزلزل کر دیا۔ نسیم شاہ نے دوسری طرف سے درست لائن اور لینتھ کے ساتھ دباؤ برقرار رکھا۔ ایون لیوس (60)، شائی ہوپ (55) اور روستن چیس (53) نے مزاحمت تو کی، مگر درمیانی اوورز میں وکٹوں کے تسلسل سے نقصان نے ان کی رفتار توڑ دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری ٹیم 280 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ شاہین نے چار شکار کیے، نسیم نے تین، جبکہ محمد نواز اور سلمان علی آغا نے اسپن سے رنز روکنے کا ہنر دکھایا۔
پاکستانی بیٹنگ میں ابتدا قدرے سست رہی، مگر اصل اننگز نوجوان حسن نواز کے بیٹ سے نکلی، جنہوں نے اپنے ڈیبیو میں ناقابلِ شکست 63 رنز بنائے۔ حسین طلعت کے ساتھ 104 رنز کی شراکت داری نے اس جیت کی بنیاد رکھی۔ دونوں نے اسپنرز کے خلاف قدموں کا درست استعمال کیا اور سنگل ڈبلز سے اننگز کو آگے بڑھایا۔ آخری لمحات میں حسن نواز کے جارحانہ شاٹس نے ویسٹ انڈیز کے بولرز کو بے بس کر دیا۔
کپتان محمد رضوان کی قیادت میں ٹیم کی حکمتِ عملی واضح تھی: ابتدا میں وکٹیں بچانا، درمیانی اوورز میں پارٹنرشپ قائم کرنا، اور اختتامی اوورز میں ہدف پر حملہ کرنا۔ بولنگ اور فیلڈنگ میں بھی نظم و ضبط نمایاں رہا، صرف چند مواقع کے علاوہ کوئی بڑی غلطی دیکھنے کو نہیں ملی۔
تجزیاتی اعتبار سے ویسٹ انڈیز کی سب سے بڑی کمزوری ان کے مڈل آرڈر کا غیر ذمہ دارانہ کھیل اور فیلڈنگ میں نرمی تھی۔ دو آسان کیچز اور ایک رن آؤٹ موقع ضائع کرنا ان کے لیے مہنگا پڑا۔ اگر وہ یہ غلطیاں دہراتے رہے تو سیریز میں واپسی ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔
اگلے میچ کے لیے پاکستان کو اپنے ٹاپ آرڈر کی کارکردگی بہتر بنانی ہوگی، کیونکہ بڑے ٹورنامنٹس میں شروعات میں وکٹیں کھونا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی، فیلڈنگ میں سو فیصد درستگی اور مڈل اوورز میں مزید جارحانہ بولنگ حکمتِ عملی اپنانا فائدہ مند ہوگا۔
یہ جیت اس حقیقت کا اعلان ہے کہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑی بڑے میچز میں دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر یہی جذبہ اور حکمت عملی برقرار رہی تو یہ سیریز صرف جیت نہیں بلکہ آنے والے عالمی مقابلوں کے لیے ایک مضبوط پیغام بن سکتی ہے کہ پاکستان کرکٹ میں کسی بھی حریف کو زیر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔