خادم آفریدی
باڑہ۔ 2021 میں منظور ہونے والا سراج الدین ٹو جان کلے سڑک چار سال کے طویل عرصہ گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکا جس کی وجہ دو اقوام کی کثیرابادی شدید مشکلات کا شکار ہیں ،سڑک کی تعمیر کے نام پر پہلے سے موجود سڑک کنڈرات میں تبدیل کریا گیا ہے جس وجہ سے مذکورہ سڑک گرد وغبار کا اماجگاہ بن چکا ہے سڑک کنارے ابادی گھرانے مسلسل گرد وغبار کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے جس میں سینے اور گلے کے امراض قابل ذکر ہیں جبکہ سڑک کے قریب ابادی اس نہ ختم ہونے والی تعمیراتی کام سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ۔اس سڑک پر روز نانہ کی بنیاد پر سینکڑوں گاڑیوں کی امد ورفت ہوتی ہے جس سے نہ صرف گاڑی مالکان بلکہ اس سڑک کو استعمال کرنے والی ہزاروں افراد جس میں طلباء اور بزگ مرد خواتین اور مریض مسلسل رول رہے ہیں ۔مقامی ابادی کا کہنا ہے کہ اس نہ ختم ہونے والے تعمیراتی کام کی وجہ سے ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور کام کی سست روی اور بندش کی مسلسل شکایت کے باوجود کہیں سے بھی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور ہر طرف سے مایوس ہوچکے ہیں ۔اس سلسلے میں ہم نے متعلقہ ٹھیکدار سے رابط کیا تو ان کا کہنا تھا کہ فنڈز عدم دستیابی کے باعث کام میں تاخیر ہورہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جتنے فنڈز ھمیں ملے تھے ان کی تناسب اور اپنی بساط زیادہ کام کرچکے ہیں لیکن مزید کام کی سکت نہیں ہے اسلئے مجبورا کام کو رکنا پڑا ہے ۔دوسری جانب مذکورہ سڑک دومنتخب ایم پی ایز کی حلقہ نیابت میں واقع ہے اس کے باوجود کام کی سست روی اور فنڈز عدم دستیابی سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ سڑک منظوری کی بھی چار سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس کے باوجود سڑک پر ستر فیصد کام باقی ہے جبکہ تیس فیصد حصہ مکمل ہوچکا ہے۔مقامی ابادی کہنا ہے کہ اگر اس منصوبے کے تکمیل میں متعلقہ ٹھیکدار غفلت و سستی کا مرتکب ہورہا ہے تو ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرکے کام کی رفتار کو تیز کیا جائے اور عوام کو اس اذیت سے نجات دلایا جائے ۔ مقامی ابادی اور تعمیراتی کام سے متاثرہ افراد نے سی این ڈبلیو کا وزیر سہیل افریدی اور ڈیڈک چیئرمین عبدالغنی افریدی سے ترجیحی بنیادوں پر اس منصوبے کی تکمیل کیلئے اقدامات اٹھانے سمیت تعمیرات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے اس اہم منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ سڑک کنارے اباد رہائشیوں نے میڈیا کو بتایا کہ اگر ہمارے مطالبات پر غور نہ کیا گیا تو راست اقدام اٹھانے سمیت منتخب نمائندوں اور ٹھیکدار کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوکر نہ ختم ہونے والا مذاحمت کا سلسلہ شروع کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا کیونکہ مزید گرد وغبار اور ذہنی اذیت کو سہنا ہمارے لئے نا قابل برداشت ہوچکا ہے ۔