حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
فن، علم اور کھیل کے شہسوار: پشتونوں کی عالمی شناخت کا سفر ۔ Home / پاکستان /

فن، علم اور کھیل کے شہسوار: پشتونوں کی عالمی شناخت کا سفر ۔

انورزادہ گلیار

فن، علم اور کھیل کے شہسوار: پشتونوں کی عالمی شناخت کا سفر ۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی ترقی اور عالمی سطح پر ان کی شناخت ہمیشہ مثبت سرگرمیوں، علمی برتری اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے ابھری ہے۔ اگر ہم اس تناظر میں پشتون قوم کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پشتونوں نے اپنے غیر معمولی حوصلے، عزم، محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
کھیلوں کے میدان میں پشتون نوجوانوں نے جو کارنامے سرانجام دیے ہیں، وہ شاندار تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ چاہے وہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم ہو یا پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی نمایاں فرنچائزز، اکثر روشن ستارے پشتون نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی، محمد رضوان،فخرزمان اور افتخار احمد جیسے کھلاڑیوں نے اپنی شاندار کارکردگی سے قومی پرچم دنیا بھر میں سربلند کیا۔ ماضی میں یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے عظیم کرکٹرز نے نہ صرف میدان میں حریفوں کو زیر کیا بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن بھی بنے۔ اسی طرح سکواش کے عالمی افق پر جان شیر خان اور جہانگیر خان نے طویل عرصے تک اپنی بادشاہی قائم رکھی، اور پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا۔
افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم بھی تقریباً مکمل طور پر پشتون کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ راشد خان، محمد نبی اور مجیب الرحمان جیسے نوجوانوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے افغانستان کو عالمی کرکٹ میں ایک ابھرتی ہوئی قوت بنا دیا، جو پشتونوں کی کھیلوں میں غیر معمولی صلاحیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
فنونِ لطیفہ کے میدان میں بھی پشتونوں کی کہانی کسی سے کم نہیں۔ بھارتی فلمی صنعت بالی ووڈ میں دلیپ کمار سے لے کر شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان اور سیف علی خان تک، کئی نمایاں ستارے پشتون نژاد ہیں جنہوں نے اپنی فنکارانہ مہارت اور محنت سے کروڑوں دلوں پر راج کیا اور بھارتی سینما کو بین الاقوامی سطح پر نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
علمی اور سائنسی میدان میں بھی پشتونوں نے تاریخ رقم کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر قوم کو فخر کا ایک ناقابلِ فراموش تحفہ دیا۔ اسی طرح 1988 میں افغان خلا باز عبدالاحد مومند نے خلا میں جا کر پشتو زبان میں دنیا سے پہلا رابطہ قائم کیا، جس کے نتیجے میں پشتو دنیا کی ان چند خوش نصیب زبانوں میں شامل ہو گئی جو خلا میں گونجیں۔ یہ کارنامے پشتون قوم کی سائنسی اور تحقیقی عظمت کی زندہ مثالیں ہیں۔
تاہم تصویر کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ بدقسمتی سے افغان اور پاکستانی طالبان سمیت کئی شدت پسند گروپوں میں پشتون نوجوانوں کی ایک تعداد شامل رہی ہے، جس نے عالمی سطح پر پشتونوں کی پرامن شناخت کو نقصان پہنچایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو علم، ترقی، کھیل اور مثبت سرگرمیوں کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کی اصل شناخت ان کے ہنر، جذبے اور صلاحیتوں میں پوشیدہ ہے، نہ کہ شدت پسندی میں۔
بعض قوتیں پشتون نوجوانوں کے ہاتھ میں بیٹ، قلم اور ساز کے بجائے بندوق تھمانے کی کوشش کرتی رہیں، مگر جب بھی دنیا میں بہترین صلاحیتوں کی تلاش ہوتی ہے تو پہلی صف میں پشتون نوجوان ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی جفاکشی، بہادری اور تخلیقی جوہر انہیں ہر میدان میں ممتاز بناتے ہیں۔ اگر آج شاہین شاہ آفریدی، راشد خان اور عبدالاحد مومند جیسے مثبت رول ماڈل نہ ہوتے تو شاید کئی نوجوان شدت پسندی کے اندھیروں میں گم ہو چکے ہوتے۔ ان مثبت کرداروں کا وجود پشتون قوم کی بقا اور ترقی کا ضامن ہے۔
لہٰذا اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان مثبت میدانوں کو مزید وسعت دیں۔ تعلیم، سائنس، کھیل، ادب اور فنون جیسے شعبوں میں پشتون نوجوانوں کی مکمل حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی جائے تاکہ ان کی صلاحیتیں مزید نکھر کر دنیا کے سامنے آئیں۔ ہمیں بندوق کے بجائے قلم، بیٹ اور ساز کو تھامنا ہوگا، کیونکہ حقیقی کامیابی کی خوشبو ہمیشہ تعمیر، ترقی اور تخلیق سے پھوٹتی ہے — اور یہ خوشبو پشتون نوجوانوں کے ہاتھوں دنیا بھر میں باآسانی پھیل سکتی ہے، بشرطیکہ ہم انہیں محبت، رہنمائی اور موقع فراہم کریں۔