حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
پشتون دشمنیوں کے دائرے سے کب نکلیں گے؟ Home / بلاگز /

پشتون دشمنیوں کے دائرے سے کب نکلیں گے؟

انورزادہ گلیار

پشتون دشمنیوں کے دائرے سے کب نکلیں گے؟

پشتون ایک بہادر، غیرت مند اور مہمان نواز قوم ہیں، جنہوں نے تاریخ کے ہر دور میں اپنی عظمت، شجاعت اور بے مثال قربانیوں کا ثبوت دیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے، پشتون معاشرہ ایک دیرینہ اور سنگین مسئلے سے دوچار ہے، جو ان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے—چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنی پال لینا اور معمولی تنازعات کو خونی تصادم میں بدل دینا۔ زمین، انا، بدلے، غیرت، معمولی تکرار اور خاندانی رنجشیں پشتونوں کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتی ہیں، جو نسل در نسل چلتی رہتی ہے اور پورے معاشرے کو عدم استحکام کا شکار کر دیتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پشتونوں کی یہ روایتی دشمنیاں نہ صرف بے شمار جانیں لے چکی ہیں، بلکہ ان کے معاشی، تعلیمی اور سماجی ترقی کے عمل کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ یہ دشمنیاں نہ صرف افراد اور خاندانوں کو تباہ کر دیتی ہیں، بلکہ پورے گاؤں، قبائل اور برادریوں میں مستقل کشیدگی پیدا کر دیتی ہیں۔ ایک معمولی جھگڑا کئی سالوں بلکہ بعض اوقات دہائیوں تک چلتا ہے، جس میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں، خاندان تباہ ہو جاتے ہیں، اور نئی نسل ایک پرامن اور بہتر مستقبل کے بجائے انتقام اور خونریزی کے دائرے میں پھنس جاتی ہے۔
پشتون معاشرے میں دشمنیوں اور قتل و غارت کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے بڑی وجہ غیرت اور انا کا مسئلہ ہے۔ پشتونوں کی روایتی غیرت اور عزت کا تصور بعض اوقات انتہا پسندی میں بدل جاتا ہے، جہاں ذرا سی تلخ کلامی یا معمولی تنازع بھی خونی تصادم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بعض اوقات ایک غلط فہمی، جھوٹی افواہ یا کسی تیسری قوت کی سازش بھی دو خاندانوں یا برادریوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دے دیتی ہے، جو کئی دہائیوں تک جاری رہتی ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ جرگہ نظام کی کمزوری ہے۔ اگرچہ پشتونوں کا روایتی جرگہ نظام صدیوں سے تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہوا ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں اس کی افادیت میں کمی آئی ہے۔ بعض اوقات جرگے کے فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے، یا فریقین ان فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مزید خونریزی جنم لیتی ہے۔ علاوہ ازیں، بعض اوقات جرگہ نظام کمزور یا جانبدار ثابت ہوتا ہے، جس کے باعث فریقین عدالتوں کا سہارا لینے کے بجائے خود ہی فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
تعلیم کی کمی اور جہالت بھی پشتونوں کے اندر انتقامی اور متشدد رویے کو پروان چڑھانے میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں تعلیم کا شعور زیادہ ہوتا ہے، وہاں لوگ بات چیت، دلیل اور قانونی طریقوں سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے، پشتون بیلٹ میں تعلیمی سہولیات کی کمی نے انتقامی رویے کو بڑھاوا دیا ہے۔ تعلیم کی روشنی انسان کو صبر، برداشت، رواداری اور صلح پسندی سکھاتی ہے، مگر جب تعلیم ناپید ہو، تو لوگ اپنی طاقت کا مظاہرہ بندوق کے ذریعے کرنے لگتے ہیں۔
پشتون علاقوں میں قانونی نظام کی کمزوری اور انصاف کی عدم فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب ایک شخص کو عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا، تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انصاف میں تاخیر اور پولیس و عدلیہ کا کمزور ہونا اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ لوگوں کا اعتماد جب ریاستی اداروں سے اٹھ جائے، تو وہ خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں، جو کہ پورے معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
یہ ایک پیچیدہ اور گہرا مسئلہ ہے، لیکن اس کا حل ممکن ہے اگر سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ سب سے پہلے، پشتون قوم کو تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں اور انہیں یہ سکھائیں کہ مسائل کو بات چیت اور قانونی ذرائع سے حل کرنا بہتر ہے۔ علماء، اساتذہ اور دانشوروں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور لوگوں میں برداشت، صلح پسندی اور رواداری کا شعور بیدار کرنا چاہیے۔
جرگہ نظام کو مزید منصفانہ، مؤثر اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی جرگوں کو ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو دیرپا امن قائم کریں، نہ کہ عارضی صلح۔ جرگے کو جدید قانونی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تاکہ انصاف سب کے لیے یکساں ہو۔
قانونی نظام کو بھی مضبوط بنانا انتہائی ضروری ہے۔ اگر عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر طریقے سے کام کریں، تو لوگ خود انتقام لینے کے بجائے عدالتوں کا رخ کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ پشتون علاقوں میں فوری اور سستا انصاف فراہم کرے تاکہ لوگ قانون کی بالا دستی پر یقین رکھیں۔
علمائے کرام اور مذہبی رہنما اس مسئلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر مساجد اور مدارس میں امن، بھائی چارے، درگزر اور معاف کرنے کی تعلیمات دی جائیں، تو لوگ صلح اور برداشت کو اپنائیں گے۔ اسی طرح، میڈیا، تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہو اور وہ دشمنیوں اور قتل و غارت کے بجائے مفاہمت اور ترقی کی راہ اختیار کریں۔
سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کو مثبت طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر پشتون نوجوان دشمنیوں کو بڑھاوا دینے کے بجائے، ان پلیٹ فارمز پر امن اور بھائی چارے کا پیغام پھیلائیں، تو معاشرتی رویے بدل سکتے ہیں۔ نئی نسل کو چاہیے کہ وہ تعمیری اور مثبت سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ یہ روایت ختم ہو سکے کہ پشتون صرف لڑائی جھگڑے اور انتقام کے لیے مشہور ہیں۔
پشتون ایک عظیم قوم ہیں، لیکن اگر وہ آپس کی دشمنیوں اور قتل و غارت سے باہر نہ نکلے، تو ان کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو تعلیم، قانون اور اتحاد پر یقین رکھتی ہیں۔ ہمیں اپنے دشمن آپس میں نہیں بنانے، بلکہ جہالت، غربت اور ناانصافی کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھنی ہوگی جہاں ہر فرد کی جان محفوظ ہو اور ہر مسئلے کا حل قانون اور مفاہمت کے ذریعے نکالا جائے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پرامن اور خوشحال پشتون معاشرہ تشکیل دیں۔ اگر ہم آج اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے، تو آنے والے کل میں ہمارے بچے بھی انہی خونریز دشمنیوں کا شکار ہوں گے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اپنی روایات کو انتقام اور دشمنی میں ضائع کریں گے یا ایک روشن اور ترقی یافتہ مستقبل کی طرف بڑھیں گے