اختر افغان
مالاکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالحسیب کی گرفتاری نے ہمارے تعلیمی نظام کی بھیانک حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، بلکہ ہر اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ایسے ہی جنسی درندے موجود ہیں جو معصوم طالبات کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں۔ عبدالحسیب جیسے وحشی صرف ایک مثال ہیں، اصل مسئلہ پورے تعلیمی نظام میں پھیلی ہوئی گندگی ہے، جسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مالاکنڈ یونیورسٹی میں مزید آپریشن کیے جائیں، مزید تحقیقات کی جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ایسے اور کتنے بھیڑیے وہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ درحقیقت، یہ صرف مالاکنڈ تک محدود نہیں، ہر تعلیمی ادارے کا کم و بیش یہی حال ہے۔ پروفیسرز، جن پر علم بانٹنے کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہی طاقت کے نشے میں طالبات کا استحصال کر رہے ہیں۔ جب تک طالبات کے نمبر اور گریڈ ان کے ہاتھوں میں رہیں گے، یہ مکروہ دھندہ چلتا رہے گا، اور معصوم لڑکیاں بلیک میل ہوتی رہیں گی۔
ایسے درندہ صفت پروفیسرز کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے، تاکہ کوئی دوسرا اس گھناؤنے فعل کی جرات نہ کرے۔ محض گرفتاری کافی نہیں، انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں استاد کے بھیس میں چھپے بھیڑیے طالبات پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ اگر اب بھی ہماری حکومت، عدلیہ اور تعلیمی ادارے خاموش رہے، تو یہ نظام مزید گل سڑ جائے گا اور علم کی جگہ ہوس راج کرے گی۔