عوامی نیشنل پارٹی نے ہمیشہ اس خطے کے امن، جمہوریت اور آئینی حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے عوام کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے قائدین، منتخب نمائندے اور عام کارکنان کو شہید کیا گیا۔ حالیہ مثال مولانا خانزیب کی شہادت ہے جنہوں نے امن کی راہ میں اپنی جان قربان کی۔ ایسے حالات میں جب دہشت گردی کا سایہ منڈلا رہا ہے، قومی امن جرگہ کا انعقاد ناگزیر تھا۔
1. قومی امن جرگہ مولانا خانزیب کو پختون قوم اور دھرتی کا قومی شہید قرار دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ دس دن کے اندر مرکزی حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرے جو اس اندوہناک قتل کے ذمہ داران کا تعین کرے۔
2. قومی امن جرگہ صوبے کی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایک جرگہ تشکیل دیا جائے جو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے پختونخوا اور سابقہ قبائلی اضلاع میں قیامِ امن کے حوالے سے سنجیدہ بات چیت کرے اور اسٹیبلشمنٹ کو کھلا پیغام دے کہ پختونخوا کی سرزمین مزید بدامنی برداشت نہیں کر سکتی۔ پختون قوم بین الاقوامی جنگوں اور کشمکش کا دوبارہ میدانِ جنگ نہیں بن سکتی اور عوام کسی صورت ایسی ریاستی پالیسی کو قبول نہیں کریں گے۔
3. جرگہ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جاری بدامنی کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو اسلام آباد یا راولپنڈی میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کرے گی۔
4. جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جائے اور اس ترمیم کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو روکا جائے۔ آئینی طور پر ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ کا اجرا لازم ہے، جرگہ اس کے فوری اجرا کا مطالبہ کرتا ہے۔
5. قومی امن جرگہ ہر قسم کے تشدد کو مسترد کرتا ہے، چاہے وہ جس نام سے اور جس جانب سے ہو۔ مزید یہ کہ ریاست کی جانب سے دہشت گردوں میں "اچھے" اور "برے" کی مضحکہ خیز تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔ لہٰذا ریاست کو تمام دہشت گرد اور پرتشدد تنظیموں کے مراکز کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
6. قومی امن جرگہ یہ سمجھتا ہے کہ ریاست جنگی معیشت اور تزویراتی پالیسی کو ترک کرے اور ہر قسم کی متشدد تنظیموں کی پشت پناہی بند کرے۔ اس کے لیے 2014 میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔
7. قومی امن جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ صوبہ پختونخوا میں 2019 سے نافذ غیر انسانی اور غیر جمہوری قانون "ایکشن ان ایڈ آف سول پاور" کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ لاپتہ افراد کو سول عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جبری گمشدگی کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
8. صوبہ پختونخوا بالخصوص ضم اضلاع میں تمام اختیارات فوری طور پر سویلین اداروں کے سپرد کیے جائیں اور قانون نافذ کرنے کا تمام انتظام پولیس کے حوالے کیا جائے۔
9. یہ جرگہ پختون سرزمین بالخصوص ضم شدہ اضلاع پر ایک اور پراکسی وار کو مسترد کرتا ہے۔
10. بدامنی مخصوص عناصر کا ذریعہ آمدن بن چکی ہے، اس ذریعہ آمدن کو بند کیا جائے اور ایسے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
11. مختلف آپریشنز اور دہشت گردی کے باعث تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی کی جائے اور بے دخل کیے گئے لوگوں کو ان کے علاقوں میں دوبارہ آباد کیا جائے۔
12. پچھلی کئی دہائیوں سے پشتون قوم کو اس خطے میں جاری دہشت گردی سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ بارہا فوجی آپریشنوں کے باوجود مختلف علاقوں میں دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں۔ قومی امن جرگہ ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس عمل کو فی الفور روکا جائے اور تمام پرائیویٹ ملیشیا نیٹ ورکس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ پشتونوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ہر طرح کے غیر آئینی اقدامات کا سدباب کیا جائے۔
13. ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو فوری طور پر ادا کرے، متاثرین کو معاوضہ دیا جائے اور ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ باجوڑ سے وزیرستان اور چمن سے چترال تک پشتونوں کے کھربوں کے املاک، بازار اور مارکیٹیں تباہ ہو چکی ہیں۔ جرگہ ان نقصانات کے فوری تلافی کی تاکید کرتا ہے۔
14. دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان جاری کشمکش میں پاکستان غیر جانبدار رہے اور پرائی جنگوں کا حصہ بننے سے اجتناب کرے۔
15. قومی امن جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برادرانہ اور ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرے تاکہ علاقائی امن، تجارت اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔
16. افغانستان کے ساتھ تمام تجارتی راستے فوری اور مستقل طور پر کھولے جائیں اور ان کا انتظام صوبہ پختونخوا کے حوالے کیا جائے۔
17. عوامی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے جس کے لیے منتخب پارلیمنٹ کو ملک کی تمام پالیسیوں کا محور بنایا جائے اور سیاست میں غیر جمہوری اداروں کی غیر آئینی مداخلت کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
18. وفاق کے ذمے صوبہ پختونخوا کے تمام واجب الادا رائلٹی ادا کی جائیں۔ نیز، نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجرا کیا جائے جس میں ضم اضلاع کو وعدے کے مطابق 100 ارب روپے، ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی اور دس سال کے لیے ٹیکس چھوٹ دی جائے۔
19. ضم اضلاع کے ترقیاتی کاموں اور انتظامی معاملات کے اختیارات سول انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کو سپرد کیے جائیں۔
20. انضمام سے قبل کیے گئے معاہدوں کی روشنی میں 22,000 خاصہ داروں کی بھرتی کا عمل یقینی بنایا جائے۔
21. ضم اضلاع میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 3 فیصد ہے، ان اضلاع میں خواتین کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔
22. ضم اضلاع میں دوبارہ آباد کاری اور ذاتی مکانات و عمارات کے لیے سروے کیا جائے اور معاہدے کے تحت سڑکیں، ہسپتال اور کالج دوبارہ تعمیر کیے جائیں۔
23. تھری جی، فور جی اور موبائل سروس کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
24. چیک پوسٹیں، جو عوام کے لیے وبالِ جان بن چکی ہیں، جلد از جلد ختم کی جائیں۔
25. لینڈ ریکارڈ کو فوری طور پر ڈیجیٹائز کیا جائے۔
26. ضم شدہ اضلاع کے لیے مختص کردہ میڈیکل و انجینئرنگ سیٹس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور ہائیر ایجوکیشن کے اسکالرشپس کو بحال کیا جائے۔
27. فرنٹیئر کانسٹیبلری (F.C) پر سب سے پہلے اور بنیادی حق خیبر پختونخوا کے عوام کا ہے۔ ایف سی کو وفاق کے ماتحت کرنے کی کوشش ظلم ہے اور قبائلی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔
28. وفاق میں بسنے والی چھوٹی قوموں کی مدتوں سے جاری محرومی اور استحصال کو ختم کیا جائے، جس کے لیے آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے تحت دیے گئے اختیارات بلاتعطل صوبوں کو منتقل کیے جائیں۔