تحریر انورزادہ گلیار
خیبر پختونخوا کے وسائل، قومی تشخص اور اجتماعی شعور کے حوالے سے کئی مصنّفین نے قلم اٹھایا، مگر جو اثر، گہرائی اور خلوص مولانا خانزیب شہید کی تحریر "شتمنه پختونخوا" میں نظر آتا ہے، وہ کم ہی کہیں دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتاب بظاہر وسائل پر لکھی گئی ایک تحقیقی دستاویز ہے، مگر درحقیقت یہ پختون قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ایک روحانی پکار ہے۔
مولانا خانزیب شہید کی یہ تصنیف ان کے حیات میں کوئی خاص توجہ حاصل نہ کر سکی۔ نہ علمی حلقوں نے اسے فوری طور پر سنجیدگی سے لیا، نہ عوام میں اس کا چرچا ہوا۔ مگر تقدیر کا ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ جب وہ ہم میں نہ رہے، تب ان کی تحریر زندہ ہو گئی۔ جیسے ہی ان کی شہادت کی خبر پھیلی، ان کے خیالات، تحریریں اور خاص کر یہ کتاب مرکزِ نگاہ بن گئیں۔ کتاب نے گویا ایک نئی زندگی پائی۔ ہر طرف اس کی مانگ بڑھ گئی۔ کتاب کے سٹالز مختلف شہروں میں سجنے لگے، اور یوں اس کی چھٹی اشاعت بھی چھپ کر منظرِ عام پر آ گئی۔
اس میں شک نہیں کہ شتمنه پختونخوا نے معلومات، دلائل، اعداد و شمار اور تاریخی حوالوں کے ذریعے خیبر پختونخوا کے وسائل کی لوٹ مار، مرکز کی اجارہ داری، اور مقامی قیادت کی خاموشی کو بےنقاب کیا۔ اس کتاب میں مولانا نے نہ صرف سوالات اٹھائے بلکہ ان کے جوابات بھی فراہم کیے۔ انھوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ قدرتی خزانوں سے بھرپور ایک محروم قوم کا نام ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ہمارے پہاڑ، دریا، جنگلات اور معدنیات ہمارے ہیں، مگر ان پر کنٹرول کہیں اور ہے۔
کتاب کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں غصہ ہے، درد ہے، مگر وہ الزام تراشی کے بجائے دلیل سے بات کرتی ہے۔ مولانا نے جذبات کو تحقیق میں ڈھالا، اور یہی چیز قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
تاہم، سوال یہ اٹھتا ہے کہ قوم نے مولانا کی قدر کب کی؟ جب وہ زندہ تھے، تب اُن کی تحریروں کو کتنا پڑھا گیا؟ اُن کے خدشات کو کتنا سنا گیا؟ کیا کبھی اُن کی بات پر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں کوئی بحث ہوئی؟ افسوس کہ نہیں۔ شاید ہمیں اُن کی شہادت کی قیمت پر ہوش آیا۔ وہی شخص جسے زندگی میں بے توجہی کا سامنا تھا، آج اُس کے لفظوں کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔
یہ رویہ صرف مولانا خانزیب کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم اپنے ہیروز کی قربانی کو بعد از مرگ تسلیم کرتے ہیں، ان کی کتابیں بعد میں پڑھتے ہیں، ان کی ویڈیوز بعد میں وائرل کرتے ہیں، ان کی تصاویر بعد میں چوکوں اور دیواروں پر چسپاں کرتے ہیں، مگر ان کے جیتے جی ان کی آواز کو نظر انداز کرتے ہیں۔
مولانا خانزیب شہید کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ انہیں مار دیا گیا، بلکہ یہ ہے کہ اُن کی باتوں کو جیتے جی اہمیت نہ دی گئی۔ ان کا پیغام ان کی زندگی میں قوم کے ضمیر تک نہ پہنچ سکا۔ آج اگر ان کی کتاب ہزاروں کی تعداد میں چھپتی ہے تو یہ ایک اجتماعی شرمندگی کا عکس بھی ہے۔
ہمیں اس رجحان پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے فکری اور قومی اثاثوں کو اُن کی زندگی میں ہی سراہنا ہوگا۔ ورنہ کل کو تاریخ ہم سے سوال کرے گی کہ جب مولانا خانزیب زندہ تھے تو تم کہاں تھے؟ اُن کی باتوں کو کس نے سنا؟ اُن کے لفظوں پر کس نے عمل کیا؟
شتمنه پختونخوا صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ یہ اس قوم کا آئینہ ہے جو ہمیشہ اپنے اصل ہیروز کو کھو کر روتی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم مولانا خانزیب شہید جیسے مفکرین کی قدر ان کی زندگی میں کریں، اور ان کے افکار کو صرف تعزیتی تقریروں یا یادگاری پروگراموں تک محدود نہ رکھیں۔ اگر واقعی ہم اُن سے محبت کرتے ہیں، تو اُن کے نظریات کو عملی شکل دینا ہوگی۔ یہی اُن کے ساتھ سچا خراجِ عقیدت ہوگا۔