حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
فرض کی راہ میں شہید ہونے والا باجوڑ کا سپوت – نائب تحصیلدار وکیل خان کی داستانِ حیات Home / بلاگز /

فرض کی راہ میں شہید ہونے والا باجوڑ کا سپوت – نائب تحصیلدار وکیل خان کی داستانِ حیات

انورزادہ گلیار

فرض کی راہ میں شہید ہونے والا باجوڑ کا سپوت – نائب تحصیلدار وکیل خان کی داستانِ حیات

2 جولائی 2025، باجوڑ کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن۔ ایک ایسا دن جو دلوں کو چیر دینے والا، ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا اور ضلعی انتظامیہ کے وقار پر کاری ضرب بن کر آیا۔ اسی دن باجوڑ کا ایک باہمت، بے لوث اور فرض شناس سپوت، نائب تحصیلدار وکیل خان، دہشت گردی کے ایک سفاک حملے میں جام شہادت نوش کر گیا۔ وہ اپنے فرائض انجام دے کر واپس خار آ رہے تھے کہ ان کی سرکاری گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ لمحہ بھر میں سب کچھ خاکستر ہو گیا، لیکن اس سانحے نے ایک ناقابلِ فراموش انسان کو ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
وکیل خان ایک عام انسان نہیں تھے، وہ عزم، حوصلے اور خدمت کا استعارہ تھے۔ ان کی زندگی کسی فلمی کہانی سے کم نہ تھی۔ 6 مارچ 1983 کو تحصیل ناوگئی کے قدیم اور غیرتمند گاؤں علیزو میں آنکھ کھولی۔ ان کی زندگی کا پہلا سبق والدین سے محنت، غیرت اور دیانت کا ملا، اور یہی تین ستون ان کی ساری زندگی کے راستے متعین کرتے رہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی، لیکن جب خار کے گورنمنٹ ہائی اسکول پہنچے تو ذہانت اور محنت کے ایسے چراغ روشن کیے کہ پورے اسکول میں اول پوزیشن حاصل کی۔ وہ اپنے ہم جماعتوں کے لیے ہمیشہ ایک مثال رہے – سادگی میں وقار، خاموشی میں گہرائی اور گفتگو میں شائستگی۔
تعلیم سے لگن کا یہ سفر آگے بڑھا اور انہوں نے پوسٹ گریجویٹ کالج خار سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ایسے وقت میں جب قبائلی علاقوں کے نوجوان صرف ملازمت کے خواب تک محدود تھے، وکیل خان نے تعلیم کے ذریعے عزت اور مقام کی راہیں کھولیں۔
2002 میں انہوں نے باجوڑ لیویز میں بطور سپاہی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ایک سپاہی سے نائب تحصیلدار تک کا یہ سفر نہ صرف ان کی محنت کی گواہی دیتا ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اگر نیت صاف ہو، راستہ سیدھا ہو اور ارادہ پختہ ہو تو کوئی خواب ناممکن نہیں۔ وہ 2007 میں پٹواری بنے، اور دس سال بعد 2017 میں نائب تحصیلدار کے عہدے پر ترقی پائی۔ لیکن یہ محض عہدے نہیں تھے، یہ عوام کے اعتماد، سچائی کی شہادت اور فرض شناسی کی سیڑھیاں تھیں، جن پر چڑھ کر وکیل خان نے دلوں میں جگہ بنائی۔
جہاں بھی گئے، عوامی خدمت کو اپنا مشن بنایا۔ ان کا کمرہِ دفتر کسی دربار سے کم نہ ہوتا جہاں فریادیوں کو عزت، غریبوں کو امید، اور مظلوموں کو انصاف ملتا۔ وہ کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے تھے، لیکن ان کے فیصلے ہمیشہ مضبوط ہوتے۔ ان کے دل میں اپنے علاقے کی محرومیوں کا درد تھا، اور وہ دل سے چاہتے تھے کہ عام انسان کو عزت، تحفظ اور آسانیاں ملیں۔
ذاتی زندگی میں وہ ایک ذمہ دار، شفیق اور قربانی دینے والے باپ تھے۔ پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، اور ایک پورے خاندان کی باگ ڈور سنبھالنے والے۔ ان کے آٹھ بچے – چار بیٹے اور چار بیٹیاں – آج ایک ہی وقت میں فخر اور یتیمی کے احساس کے ساتھ زندہ ہیں۔ ان کی زندگی آسان نہ تھی، لیکن کبھی زبان پر شکوہ نہ آیا۔ ان کے چہرے پر ہر وقت ایک مطمئن مسکراہٹ رہتی تھی، جو ان کی اندرونی سچائی کا مظہر تھی۔
اور پھر وہ دل دہلا دینے والا دن – 2 جولائی۔ وہ حسب معمول اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد اسسٹنٹ کمشنر ناوگئی فیصل اسماعیل، سب انسپکٹر نور حکیم اور دیگر اہلکاروں کے ہمراہ سرکاری گاڑی میں خار واپس آ رہے تھے۔ راستے میں موت گھات لگائے بیٹھی تھی۔ ایک خوفناک دھماکہ ہوا، اور گاڑی لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ وکیل خان سمیت پانچ افراد موقع پر شہید ہو گئے۔ نہ جانے کتنے خواب، کتنی امیدیں اور کتنے ارادے اس دھماکے میں خاک ہو گئے۔
یہ حملہ صرف ایک گاڑی یا افسر پر نہیں تھا، یہ حملہ انصاف، امن، ریاستی وقار اور ان تمام اصولوں پر تھا جن پر ایک مہذب سماج قائم ہوتا ہے۔ وکیل خان کی شہادت نے ہمیں یاد دلایا کہ اصل ہیرو وہ ہوتے ہیں جو وردی میں نہیں بلکہ خدمت اور سچائی میں جیتے ہیں۔
ان کا جنازہ جب وطن کے پرچم میں لپٹا ہوا اپنے گاؤں پہنچا، تو ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر دل بوجھل۔ نہ صرف ان کے اہل خانہ، بلکہ پورے باجوڑ نے انہیں ایک قومی ہیرو کے طور پر الوداع کہا۔ جنازے میں لوگوں کا ہجوم، دعاؤں کا سمندر، اور آنکھوں میں بس ایک ہی صدا – یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
وکیل خان کا جانا، ان کی شہادت، ہمارے لیے ایک سبق ہے، ایک صدمہ ہے، اور ایک پیغام بھی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ایسے لوگ معاشرے کا فخر ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کسی سیاست، ذاتی مفاد یا نمود و نمائش کی کہانی نہیں بلکہ خالص خدمت، خلوص اور قربانی کا مظہر ہوتی ہے۔
آج اگر ہم وکیل خان کو یاد کرتے ہیں، تو یہ صرف ایک افسر کے طور پر نہیں بلکہ ایک کردار، ایک اصول، ایک نظریہ، اور ایک روشن مثال کے طور پر ہے۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچ بولنے، درست کام کرنے اور حق پر قائم رہنے کی قیمت کبھی کبھار جان سے ادا کرنی پڑتی ہے – لیکن یہی لوگ تاریخ رقم کرتے ہیں۔
وکیل خان اب ہمارے درمیان نہیں، مگر ان کی قربانی ہمارے دلوں میں، ان کے اصول ہمارے عمل میں، اور ان کی یادیں ہمارے ضمیر میں زندہ رہیں گی۔ باجوڑ کا یہ فرزند آج مٹی میں دفن ہے، مگر آنے والی نسلوں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دے گیا ہے۔
قوم ان جیسے شہیدوں کو سلام پیش کرتی ہے – وہ لوگ جو خاموشی سے اس دھرتی کو عظمت بخشتے ہیں، اور اپنے لہو سے وطن کی بنیادوں کو سینچتے ہیں۔