حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
مردان میں کھیتوں سے ملنے والی مصعوم بچی: انسانیت کے ضمیر ابھی زندہ ہیں باجوڑ کے سماجی ورکر ذاہد جان کا کردار Home / بلاگز /

مردان میں کھیتوں سے ملنے والی مصعوم بچی: انسانیت کے ضمیر ابھی زندہ ہیں باجوڑ کے سماجی ورکر ذاہد جان کا کردار

حنیف اللہ

مردان میں کھیتوں سے ملنے والی مصعوم بچی: انسانیت کے ضمیر ابھی زندہ ہیں باجوڑ کے سماجی ورکر ذاہد جان کا کردار

تخت بائی کے مضافاتی علاقے ساڑو شاہ کے کھیتوں میں لاوارث حالت میں ملنے والی معصوم بچی اس وقت چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تحویل میں ہے۔ اس دردناک واقعے پر باجوڑ سے تعلق رکھنے والے  صحافی اور ذاہد خیریہ بنسٹ کے بانی ذاہد جان نے انسانیت کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے بچی کو گود لینے کی درخواست جمع کرائی، اور ساتھ ہی معاشرے کی بے حسی اور بچی پر ہونے والے ظلم کیخلاف بھرپور آواز بلند کی۔

اس حوالے سے زاہد جان کا کہنا ہے"اس بچی کی پرورش کرنا مشکل نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے ماں باپ اتنے سنگدل کیوں بنے؟ کہیں ماں یا والد کو کسی نے قتل تو نہیں کیا؟"

انہوں نے اعلیٰ حکام اور پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آئیں۔

کیا اس بچی کے ساتھ ہونے والا ظلم ایک اور بہیمانہ سچائی کی نشاندہی نہیں کرتا؟ آخر ظلم کا نشانہ ہمیشہ لڑکیاں ہی کیوں بنتی ہیں؟ پہلے زندہ دفنایا جاتا تھا، اب زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے؟

اس حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن مردان نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ 
ایک نوزائیدہ بچی جو 18 جون 2025 کو مردان تخت بائی کے سرہو شاہ میں لاوارث پائی گئی تھی، کو بحفاظت بچا لیا گیا ہے اور اس وقت چائلڈ پروٹیکشن یونٹ (CPU) مردان نے حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔
بچے کو ابتدائی طور پر مقامی پولیس نے بازیاب کرایا اور ضروری ہم آہنگی کے بعد مردان میڈیکل کمپلیکس کے نوزائیدہ انتہائی نگہداشت یونٹ (این آئی سی یو) میں فوری طبی دیکھ بھال اور مشاہدے کے لیے داخل کرایا گیا۔ سی پی یو مردان اب اس کیس کو خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 کے مطابق ہینڈل کر رہا ہے۔

چونکہ قانونی تقاضے پاکستان میں پورا کرنا نہایت مشکل ہے اور کسی بھی کام کیلئے قانونی تقاضوں کو پورا کرنا ناممکن بنا دیتے ہیں اس لیے مشکلات پیش آرہی ہے مگر اس کے باجود باجوڑ کے سنیئر صحافی ذاہد جان نے بھرپور کوششیں کی اور کررہے ہیں مگر تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی کہ بچی کو گود لیا جاسکے۔ 
مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر خاوند بیوی کی ناچاقی ہو ، آپس میں دشمنی ہو ، طلاق ہو یا کچھ بھی ہو مگر اس کا قصور بچی کو کیوں ؟ اس کی سزا بچی کو کیوں دی جا رہی ہے ؟

انسانیت ابھی زندہ ہے، لیکن خاموشی اسے دفنا دے گی۔ بحیثیت معاشرے ہمیں اس سوچ و فکر کو بدلنا پڑے گا ورنہ ہم میں اور دور جہالیت کے لوگوں میں کیا فرق ہوا جو اپنے بچیوں کو زندہ دفناتے تھے اور ہم کچرے دانوں میں کھیتوں میں پھینک دیتے ہیں۔

ایسے سیکنڑوں بچوں کے کہانیاں سننے کو مل رہے ہیں اسطرح ظلم کرنے والے چاہے ماں ہو یا باپ ان کیلئے سخت قانون نافذ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی والدین ایسے کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ ساتھ ہی کسی بچی کو گود لینے کیلئے چائلڈ پروٹیکشن کے قوانین میں سختی کے بجائے نرمی لانی چاہیے تاکہ کسی لاوارث بچے کی جان بچ جائے۔ 
بینک اسٹیٹمنٹ ،میڈیکل رپورٹ اور اوپر سے ضمانت دینا اور ساتھ ہی بچی کو وکیل اور عدالت کے ذریعے دینا یہ ایک مشکل مرحلہ ہے اس میں آسانی لانی چاہیے۔