حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
پولیو کے خلاف باجوڑ کی ناقابل شکست جنگ: خاموش انقلاب کی داستان Home / بلاگز /

پولیو کے خلاف باجوڑ کی ناقابل شکست جنگ: خاموش انقلاب کی داستان

انورزادہ گلیار

پولیو کے خلاف باجوڑ کی ناقابل شکست جنگ: خاموش انقلاب کی داستان

پولیو ایک مہلک وائرس ہے جو معصوم بچوں کو عمر بھر کے لیے معذوری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں اس بیماری کے خاتمے کے لیے نمایاں پیش رفت ہو چکی ہے، لیکن پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں یہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔ ایسے میں ضلع باجوڑ ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا ہے، جہاں گزشتہ کئی برسوں سے پولیو کا کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ یہ کامیابی کسی اتفاق یا معمولی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مربوط، مؤثر اور ہمہ جہت حکمت عملی کا ثمر ہے، جس میں عوام، علما، مقامی مشران، میڈیا اور سرکاری ادارے سب شریک رہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر گوہر کے مطابق، باجوڑ کو حالیہ قومی درجہ بندی میں اُن اضلاع میں شامل کیا گیا ہے جہاں پولیو کے خطرات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ آخری بار 2018 کے دوسرے نصف میں یہاں پولیو وائرس WPV1 کا کیس سامنے آیا، جبکہ جنوری 2019 میں ایک اور کیس رپورٹ ہوا۔ بعد ازاں 2019 اور 2020 کے دوران cVDPV2 وائرس کی وباء کے نتیجے میں چند مزید کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ تاہم، اُس کے بعد سے ضلع میں مکمل خاموشی رہی — ایک ایسی خاموشی جو اس خاموش انقلاب کی غماز ہے، جو مربوط جدوجہد اور مستقل مزاجی سے ممکن ہوا۔
یہ کامیابی اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ باجوڑ کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ماضی میں سیکیورٹی خدشات، ویکسین سے متعلق غلط فہمیاں، پولیو ٹیموں پر حملے، والدین کے انکار اور جغرافیائی رکاوٹیں پولیو مہمات کو شدید متاثر کرتی رہی ہیں۔ 2014 سے 2020 تک کئی چیلنجز سامنے آئے جن میں والدین کا اعتماد بحال کرنا، علما و مشران کا تعاون حاصل کرنا، اور پولیو ٹیموں کی حفاظت کو یقینی بنانا شامل تھا۔ ان حالات میں ہر پولیو مہم ایک خطرناک مشن بن چکی تھی۔
2020 کے بعد، محکمہ صحت نے ایک جامع حکمت عملی متعارف کروائی۔ علما، قبائلی مشران، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو آگاہی مہمات کا حصہ بنایا گیا۔ خطباتِ جمعہ، جرگوں اور عوامی اجتماعات کو شعور بیداری کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پولیو ٹیموں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی گئی، ان کی تربیت اور سہولیات کو بہتر بنایا گیا، اور والدین کے انکار کی صورت میں جرگہ سسٹم کے ذریعے مکالمہ کا راستہ اپنایا گیا۔
اسی دوران عالمی ادارہ صحت (WHO)، یونیسف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی معاونت سے ڈیجیٹل مانیٹرنگ، GPS ٹریکنگ اور مائیکرو پلاننگ جیسے جدید طریقوں کو اختیار کیا گیا تاکہ مہمات کی نگرانی بہتر بنائی جا سکے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں 2020 سے اب تک باجوڑ میں پولیو کا کوئی نیا انسانی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
اگرچہ انسانی کیسز کی عدم موجودگی اطمینان بخش ہے، تاہم 2024 کے دوران انوائرمنٹل سیمپلز میں چار ماہ تک وائرس کی موجودگی رپورٹ ہوئی۔ یہ ایک وارننگ تھی کہ خطرہ ابھی مکمل ختم نہیں ہوا۔ تاہم، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے مطابق، اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے تین مسلسل مہمات انتہائی منظم اور مؤثر انداز میں چلائی گئیں، جن کے نتیجے میں انوائرمنٹل رپورٹس اب دوبارہ منفی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ پیش رفت اس بات کی مظہر ہے کہ ادارہ جاتی ردعمل اور مسلسل محنت سے خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ کامیابی نہ صرف صحت عامہ کے میدان میں ایک سنگِ میل ہے بلکہ اس اجتماعی شعور، تعاون اور مربوط حکمت عملی کی بھی آئینہ دار ہے جو اس ضلع کے باسیوں نے اپنائی۔
تاہم، یہ کامیابی ایک اختتام نہیں بلکہ نئے مرحلے کی شروعات ہے۔ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے مستقل چوکسی، ہر مہم کی مؤثر نگرانی، والدین کا اعتماد قائم رکھنا، سرحدی علاقوں میں حساسیت، تعلیمی اداروں میں آگاہی، اور صحت و صفائی کے نظام کی بہتری جیسے اقدامات بدستور ناگزیر ہیں۔
ضلع باجوڑ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت صادق ہو، قیادت باشعور ہو، اور عوام کا تعاون حاصل ہو، تو دنیا کی بدترین بیماریوں کو بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ ماڈل پورے پاکستان کے لیے قابلِ تقلید ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہے، تاکہ ہمارا ملک بھی پولیو سے پاک مستقبل کی طرف بڑھ سکے