انورزادہ گلیار
قبائلی ضلع باجوڑ، جو کبھی فاٹا کا حصہ رہا، آج بھی ترقی کے کارواں سے بہت پیچھے، حسرت بھری نگاہوں سے اُن علاقوں کو تکتا ہے جہاں تعلیم، صحت اور خوشحالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہاں کے عوام دہائیوں سے حکومتی دعوؤں، اعلانات اور منصوبوں کے دھوئیں میں امید کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں۔ انہی چراغوں میں ایک روشنی 2002 میں دکھائی دی، جب وفاقی حکومت نے باجوڑ میں خواتین کے لیے نرسنگ کالج کے قیام کی منظوری دی—ایسا خواب جو یہاں کی بچیوں کے لیے علم، خودمختاری اور روشن مستقبل کی نوید تھا۔
اس منصوبے کے تحت 2006 میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال خار کے احاطے میں ایک شاندار عمارت تعمیر کی گئی، جسے 2007 میں فعال کیا جانا تھا۔ مگر یہ خواب، خواب ہی رہا۔ اگرچہ عمارت اپنی جگہ کھڑی ہو گئی، مگر وہ علم کا گہوارہ بننے کے بجائے ایک سنسان کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس نرسنگ کالج کے لیے ڈرائیور، کلاس فور اور نائب قاصد جیسے چھوٹے درجے کے ملازمین بھرتی تو کیے گئے، لیکن تدریسی و انتظامی بنیادی عملہ تاحال تعینات نہیں ہو سکا۔
کالج کی عمارت آج شکستہ حال ہے—کھڑکیوں کے شیشے چکناچور، دیواریں چھلنی، اور در و دیوار اُداسی کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ یہ عمارت گویا اپنی تنہائی اور نظراندازی پر خود ہی بین کرتی ہے۔
اس تاخیر کی کئی وجوہات ہیں۔ انضمام سے قبل یہ ادارہ ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ فاٹا کے زیرِ نگرانی تھا، جس نے بھی اس کی فعالی میں کوئی سنجیدگی نہ دکھائی۔ بعد ازاں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اسے پراونشل ہیلتھ سروسز اکیڈمی (PHSA) کے حوالے کیا گیا، جس نے حسبِ روایت عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو فائلوں کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق PHSA اب فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔
کبھی بجٹ نہ ہونے کا بہانہ، کبھی منصوبہ بندی میں سستی، اور کبھی سیاسی ترجیحات کی تبدیلی—یہ تمام عوامل اس تعلیمی خواب کی راہ میں دیوار بنتے گئے۔ ہر دور کی حکومت نے محض کاغذی کارروائیوں تک خود کو محدود رکھا، جبکہ زمینی حقائق بدترین غفلت کی تصویر پیش کرتے رہے۔
باجوڑ کی وہ ہزاروں بیٹیاں جو نرسنگ جیسے مقدس پیشے میں قدم رکھنا چاہتی تھیں، اس ادارے کی بندش کے باعث یا تو تعلیم سے محروم رہ گئیں، یا مالی مشکلات کے باعث دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب ہی ترک کر دیا۔ اس محرومی کا دائرہ صرف تعلیم تک محدود نہیں رہا، بلکہ صحت کے شعبے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مقامی اسپتالوں میں نرسز کی شدید کمی ہے، اور مرد عملہ خواتین مریضوں کی دیکھ بھال میں ناکام ہے۔ تربیت یافتہ خواتین نرسز کی عدم موجودگی نے مقامی صحت کے نظام کو بحران میں ڈال دیا ہے۔
یہ محض ایک عمارت کی کہانی نہیں، یہ ہزاروں خوابوں، تمناؤں اور امکانات کی موت کی داستان ہے۔ مقامی نمائندے، قبائلی مشران اور سول سوسائٹی بارہا مطالبہ کر چکے ہیں کہ ویمن نرسنگ کالج باجوڑ کو ترجیحی بنیادوں پر فعال کیا جائے، لیکن ہر بار صرف وعدوں اور طفل تسلیوں سے کام لیا گیا۔
حکومتِ خیبر پختونخوا، محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ اداروں کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ باجوڑ کی بیٹیوں کو ترقی کے اس سفر میں شامل کرنا، انہیں تعلیم، روزگار اور عزتِ نفس فراہم کرنا محض ایک وعدہ نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے۔ نرسنگ کالج کی تکمیل صرف ایک منصوبے کی تکمیل نہیں ہوگی، بلکہ یہ پسماندگی سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر پہلا قدم ہوگا۔
انیس برس—کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے لیے ناقابلِ قبول تاخیر ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ باجوڑ کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے اس منصوبے کو عملی شکل دی جائے، تاکہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایک نئی صبح طلوع ہو، اور یہاں کی بیٹیاں بھی فخر سے کہہ سکیں کہ ہم بھی کچھ ہیں زمانے میں