حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
سیاسی عدم برداشت کی وجوہات اور معاشرے پر اس کے اثرات Home / بلاگز /

سیاسی عدم برداشت کی وجوہات اور معاشرے پر اس کے اثرات

میاں وقاص احمد

سیاسی عدم برداشت کی وجوہات اور معاشرے پر اس کے اثرات



قومیں مختلف ادوار میں آزمائشی تجربات سے گزرتی رہتی ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہی حال اور مستقبل میں ایک باوقار مقام پاتے ہیں پاکستان کا سیاسی ماحول بدقسمتی سے کبھی بھی مثالی نہیں رہا اسی کا نتیجہ ہے کہ بار بار جمہوری عمل کا تسلسل ٹوٹتا رہا مگر اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کے نتائج سے سبق نہیں سیکھ پاتے اور اسکا عملی مظاہرہ ہم جاری صورتحال کے اثرات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں سیاست ایک جہد مسلسل‘ برداشت اور تجربات کا نام ہے اور سیاسی قائدین نہ صرف نظام حکومت چلاتے ہیں بلکہ وہ افراد قوم اور معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
سیاسی عدم برداشت ایک ایسا رجحان ہے جس میں افراد یا گروہ مختلف سیاسی نظریات، خیالات، یا جماعتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ معاشرتی امن و سکون کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تشدد و شدت پسندی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے سیاسی خیالات یا جماعتوں کو نہ صرف غلط سمجھتے ہیں بلکہ ان کو ختم کرنے 
کی کوشش کرتے ہیں تو یہ تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
سیاسی عدم برداشت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب افراد یا گروہ ایک دوسرے کے سیاسی اختلافات کو برداشت نہیں کرتے اور ان کے خیالات یا نظریات کو مکمل طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ عدم برداشت خاص طور پر اس وقت بڑھتی ہے جب افراد یا جماعتیں اپنے سیاسی نظریات کو حقیقت اور دوسرے کے خیالات کو دشمنی سمجھنے لگتی ہیں۔ جب اس صورتحال میں شدت آتی ہے، تو سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور شدت پسندی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے

سیاسی عدم برداشت کی وجوہات
نظریاتی اختلافات: جب مختلف جماعتیں یا افراد اپنے سیاسی خیالات اور نظریات میں سختی اختیار کرتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی رائے کو حقیقت سمجھ کر دوسروں کو ملامت کرنے لگتے ہیں۔

تاریخی پس منظر: کئی بار سیاسی اختلافات تاریخی جڑوں کی وجہ سے بھی گہرے ہوتے ہیں، جن میں ماضی کے سیاسی تنازعات اور جنگیں شامل ہوتی ہیں۔ ایسے معاملات میں رواداری کا فقدان ہوتا ہے۔

مفادات کی سیاست: بعض اوقات سیاسی جماعتیں یا شخصیات اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور ملک کی عوامی مفاد کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عدم برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔

میڈیا کا کردار: میڈیا میں بعض اوقات سیاسی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے عوام میں مزید نفرت اور دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں

گفتگو کا بحران: سیاسی عدم برداشت کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر بحث و مباحثہ کا ماحول ختم ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگ اپنے اختلافات کو تحمل کے ساتھ برداشت کرتے تھے، وہاں اب بات چیت کی بجائے تیز تر الفاظ اور تشدد کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ احتجاجات اور تشدد کی صورت میں اپنے سیاسی خیالات کو منوانا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ شدید احتجاجات اور دہشت گردی تک بھی پہنچ جاتے ہیں

سیاسی عدم برداشت کا معاشرے پر اثرات
سیاسی عدم برداشت ایک پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے جس کا اثر معاشرتی ڈھانچے، اداروں اور فرد کی زندگی پر پڑتا ہے۔ جب سیاسی اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں اور تشدد یا انتہا پسندی کی شکل اختیار کرتے ہیں، تو اس کے اثرات صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں رہتے، بلکہ پورے معاشرتی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ اثرات معاشرتی ہم آہنگی، جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی ترقی پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔

معاشرتی ہم آہنگی کا فقدان
سیاسی عدم برداشت، خاص طور پر جب یہ تشدد یا انتہا پسندی میں بدل جائے، تو معاشرتی ہم آہنگی اور اتحاد کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے سیاسی نظریات یا شناخت کی بنیاد پر دشمنی کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرتی رشتہ ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر سیاسی اختلافات میں شدت آ جائے تو معاشرتی طبقوں کے درمیان نفرت اور اختلافات بڑھ جاتے ہیں، جو نہ صرف سیاسی بلکہ نسلی، مذہبی اور ثقافتی سطح پر بھی تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

جمہوری اداروں کی کمزوری
سیاسی عدم برداشت اور تشدد کا ایک اور بڑا اثر جمہوری اداروں پر پڑتا ہے۔ جب لوگوں میں اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں، تو ان میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری عمل پر اعتماد کم ہوتا ہے۔ تشدد اور انتہا پسندی جمہوری اقدار جیسے کہ آزادی اظہار رائے، آزادانہ انتخابات، اور امن و سکون کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ اس سے جمہوری عمل میں خلل پڑتا ہے اور عوام کے اعتماد میں کمی آتی ہے۔

معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ
تشدد اور انتہا پسندی معاشی ترقی کے لئے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ معاشرتی بدامنی کی حالت میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے، اور لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے اپنی روزمرہ کی زندگی میں ترقی نہیں کر پاتے۔ اقتصادی بدحالی، بیروزگاری، اور فنی مہارتوں کی کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی پامالی
سیاسی عدم برداشت جب تشدد اور انتہا پسندی کی صورت اختیار کر لیتی ہے، تو اس سے انسانوں کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب مختلف سیاسی گروہ اپنے مفادات کے لئے تشدد کا سہارا لیتے ہیں، تو معصوم شہری اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جیسے کہ جبری گمشدگیاں، تشدد، غیر قانونی حراست، اور آزادی اظہار رائے پر پابندیاں بڑھ جاتی ہیں۔

مذہبی و ثقافتی رواداری میں کمی
سیاسی تشدد اور انتہا پسندی مذہبی اور ثقافتی رواداری کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے سیاسی عقائد کو برداشت کرنے کے بجائے ان پر حملہ آور ہونے لگتے ہیں، تو اس کا اثر مذہبی اور ثقافتی گروپوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت، نسلی تفریق اور مذہبی منافرت میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے پورے معاشرے میں کشیدگی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔

تعلیمی نظام پر اثرات
سیاسی عدم برداشت اور تشدد کا ایک اور سنگین اثر تعلیمی اداروں پر پڑتا ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان سیاسی اختلافات بڑھ جاتے ہیں اور وہ تشدد کا سہارا لیتے ہیں، تو یہ تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ کی ذہنی نشونما اور تربیت متاثر ہوتی ہے، اور وہ سیاسی شدت پسندی کے اثرات میں الجھ کر اپنی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

قانونی نظام پر بوجھ
جب سیاسی عدم برداشت انتہا پسندی اور تشدد میں بدل جاتی ہے، تو اس کا اثر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ پر پڑتا ہے۔ پولیس، فوج، اور عدلیہ پر دباؤ بڑھتا ہے، کیونکہ انہیں تشدد اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عدلیہ میں مقدمات کا بوجھ بڑھتا ہے اور انصاف کی فراہمی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
سیاسی عدم برداشت جب تشدد اور انتہا پسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے، تو اس کے معاشرتی اثرات نہایت سنگین اور دور رس ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے بلکہ جمہوری اقدار، معاشی ترقی، انسانی حقوق اور ثقافتی رواداری بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ اس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ایک مشترکہ کوشش کریں تاکہ سیاسی اختلافات کو پرامن طریقوں سے حل کیا جا سکے اور معاشرتی امن قائم رکھا جا سکے۔