حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
خیبرپختونخوا کے گمنام شہداء صحافت – کیا ان کی قربانیاں نظرانداز کی جا سکتی ہیں؟ Home / بلاگز /

خیبرپختونخوا کے گمنام شہداء صحافت – کیا ان کی قربانیاں نظرانداز کی جا سکتی ہیں؟

انورزادہ گلیار

خیبرپختونخوا کے گمنام شہداء صحافت – کیا ان کی قربانیاں نظرانداز کی جا سکتی ہیں؟

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے پشاور یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کو ارشد شریف کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان ایک متنازعہ فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ خیبرپختونخوا اور سابقہ قبائلی اضلاع میں درجنوں صحافیوں نے آزادی صحافت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، لیکن ان کی قربانیوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع پاکستان کے وہ علاقے ہیں جہاں صحافت ہمیشہ ایک مشکل ترین پیشہ رہا ہے۔ دہشت گردی، عسکریت پسندی، ریاستی جبر اور دیگر خطرات کے باوجود یہاں کے صحافیوں نے حقائق کو سامنے لانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کیں۔ رپورٹس کے مطابق، خیبرپختونخوا میں گزشتہ دو دہائیوں میں 33 صحافی شہید کیے جا چکے ہیں، جن میں حیات اللہ، مکرم خان عاطف ،ابراہیم جان ،ڈاکٹر نور حکیم ،خلیل جبران موسی خانخیل اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
کیا ان صحافیوں کی قربانیاں محض اس لیے فراموش کر دی جائیں کہ وہ کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کام نہیں کر رہے تھے؟ کیا خیبرپختونخوا کے صحافیوں کا کوئی حق نہیں کہ ان کے نام پر کوئی ادارہ یا عمارت منسوب کی جائے؟ ارشد شریف کی شہادت یقیناً ایک بڑا سانحہ تھا، اور ان کے اہل خانہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی شناخت ایک مخصوص سیاسی جماعت سے وابستگی کی وجہ سے زیادہ نمایاں ہوئی۔ ان کی صحافتی خدمات اپنی جگہ، مگر کیا ان سے زیادہ خطرناک حالات میں رپورٹنگ کرنے والے خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع کے صحافیوں کی قربانی کم اہم ہے؟ ارشد شریف کے حق میں فیصلے کو سیاسی تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ ان کی شہادت کو ایک خاص بیانیے کے تحت زیادہ اجاگر کیا گیا، جب کہ خیبرپختونخوا کے سینکڑوں گمنام شہداء کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے صحافی کیا اس ملک کے برابر کے شہری نہیں؟ جب بھی آزادی صحافت کی بات آتی ہے، تو یہی صحافی فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے طالبانائزیشن، ریاستی جبر، اور مختلف گروہوں کی دھمکیوں کے باوجود اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔ ان کی قربانیوں کو نظر انداز کر کے اگر صرف ارشد شریف کو یہ اعزاز دیا جائے، تو یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں شہید ہونے والے تمام صحافیوں کو برابر کی اہمیت دے۔ اگر پشاور یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کسی کے نام سے منسوب کرنا ضروری ہے، تو بہتر ہوگا کہ یہ نام کسی ایسے صحافی کا ہو، جس نے اسی خطے میں جان قربان کی ہو۔ یا پھر "خیبرپختونخوا شہداء صحافی ڈیپارٹمنٹ" کے نام سے منسوب کیا جائے تاکہ تمام شہداء کی قربانیوں کو تسلیم کیا جا سکے۔
صحافت کے میدان میں جان دینے والے تمام صحافیوں کی قربانیوں کا یکساں احترام کیا جانا چاہیے۔ کسی ایک صحافی کو خاص اہمیت دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا ناانصافی اور کھلا تضاد ہے۔ اگر حکومت واقعی آزادی صحافت کے لیے سنجیدہ ہے، تو اسے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر تمام شہید صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوگا