رشیدآفاق
ہم روز ہمارے پریس کلب کو مختلف سیاستدان،مذہبی،سیاسی،سماجی،کھیلوں سے وابستہ شخصیات کو پریس کلب مدعو کرکے ان کی عزت افزائی کرتے ہیں،ان کی رویووں کو برداشت کرتے ہیں،ان کی مناسب اور غیرمناسب باتوں کو ترتیب دیکر کور کرتے ہیں،وہ بھی اکھڑ اکھڑ کر گفتگو کرتے ہیں پھر اگلے گھنٹے ٹی وی سکرین اور اگلے دن اخبارات کی زینت بن کر ہماری صحافتی تجربوں اور تجزیوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں،ہم یہ سب کچھ مفت میں یا اپنی صحافتی زمہ داریوں کے تحت بخوشی سرانجام دیتے ہیں،ان شخصیات میں زیادہ تر کو ہم جانتے ہیں لیکن وہ ہم تمام ساتھیوں کو نہیں جانتے،لیکن پھر بھی یہ سلسلہ چلتاآرہاہے،جو آج تک قائم و دائم ہے،یہی ہمارا اڑھنا بچھونا ہے،یہی ہمارا کام ہے جو ہم کررہے ہیں،ان تمام مراحل میں ہمیں بطور صحافی فقط یہ فائدہ ہوتاہے کہ ہمارے پریس کلب اور ہماری شان قائم ہیں،روز ایک نیا نیا رشتہ قائم کرنا پڑرہاہے جس سے ہم وابستہ ہیں اور ہماری ذات اور اداروں سے ان لوگوں کے رشتے قائم ہیں،ہمیں خوشی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا کام درست طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں،ان پروگرامز میں زیادہ تر عوامی مسائل کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہیں جو ہمارے ذریعے اقتدار کی ایوانوں تک پہنچتے ہیں،ہمیں اس روز وشب سے محبت ہے کیونکہ ہماری آن بان شان ان ہی سے قائم ہیں،
دوسری طرف ہم خود اپنے ان دوستوں کو نظر انداز کرتے ہیں جن کی پذیرائی عوامی یا حکومتی حلقوں سے کی جاتی ہیں،ہم ان کو معمول سمجھ کر فراموش کردیتے ہیں،جیسے حال ہی میں ہمارے پیارے اور تگڑے دوستوں ارشدعزیز ملک صاحب اور امجدعزیز ملک صاحب کو تمغوں سے نواز کر حکومت نے ہم سب کو اعزاز بخشی ہے،ان دونوں شخصیات کی خدمات کا اعتراف کرکے یہ ثابت ہواکہ یہ عظیم لوگ ہمارا فخر ہی نہیں ہمارے وجود کا حصہ ہے،جس پر ہم سب کو فخر کرنا چاہئے،ان کو بار بار مبارکباد دینا چاہئے،ان کی مزید حوصلہ افزائی کرنی چاہئے،لیکن یہاں ایک عجیب سی خاموشی اختیار کی گئی ہے،بس وٹس گروپس میں مبارکباد دینے تک ہی بات محدود کردی گئی ہے،جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا،مبارکباد تو پرائے لوگ بھی دیتے ہیں،اگر ہم پرائے اور گھسے پٹھے سیاستدانوں کے اعزاز میں پروگرامز مرتب کرسکتے ہیں پھر اپنے ان ہیروز کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی تو ایک ادھ پروگرامز کا انعقاد کرنا کیا ہمارا اخلاقی فرض نہیں بنتاہے؟یہاں تو ایسی خاموشی اختیار کی گئی ہے جیسے ہم سب کے تمغے زبردستی ہم سے چھین کر ان کے سینوں پر سجائیں ہو،ایسا ہرگز نہیں ان دونوں قابل قدر شخصیات نے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ بہتر ہیں اور بہتر کام کرکے ہی یہ مقام حاصل کیا ہے،یا تو ہمیں ان دونوں شخصیات کو مزید اگے بڑھنے کے لئے ان کوداد دینی چاہئے یا پھر منافقت کا کھلم کھلا مظاہرہ کرکے ان کو یہ بات پہنچانی چاہئے کہ ہمیں جھیلسی فیل ہورہی ہے،
دوسری بات کہ پچھلی کابینہ میں عمران یوسفزئی بھائی نے ایک کوشش کی تھی کہ جو ہمارے ممبرز صاحب کتاب ہیں ان کو ایوارڈز،سرٹیفیکٹ دیکر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے،ایک حد تک پر اس پر کام بھی ہوا تھا لیکن پھر وہ سلسلہ ادھورا ہی رہ گیا،ہمارے دوستوں میں بہت ہی نایاب ہیرے ہیں،شعراء ہیں،ادیب اور کالم نگار ہیں،لیکن مجال ہے کہ ہمارے اپنے ساتھیوں کو بھی ان کی ان کرامات کے بارے علم ہو،میں نے خود تین کتابیں لکھی ہیں،جس میں ایک شعری مجموعہ،ایک اپ بیتی اور ایک میرے چھاپ شدہ کالموں کا مجموعہ ہے،مجھے قوی یقین ہے کہ پریس کلب میں میرے موجود بہت ہی نزدیکی دوستوں کو میری ان کتابوں کے بارے معلومات ہو،
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں خود ایک دوسرے کو اگے بڑھنے کے لئے عزت دینی چاہئے،ایک دوسرے کو احترام دینے سے ہی ہم اپنی اپنی نظروں میں معتبر ہوسکتے ہیں،
میری طرف سے ایک دفعہ پھر محترم ارشدعزیز ملک صاحب اور امجدعزیز ملک صاحب کو بہت بہت مبارک ہو
اللہ ہم سب کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور عزت افزائی بخشنے کے قابل بنائے،