مولانا خانزیب
1867 میں برطانوی ہند میں (جس میں موجودہ پاکستان بھی شامل ہے) قتلِ عام سے وابستہ ضابطہ قانون ( MURDEROUS OUTRAGES REGULATION )
مرڈر آؤٹریجز ریگولیشن کو نافذ کیا گیا ۔ اس قانون کے نفاذ سے فرنگی سامراج کو قتل سمیت جیسے سنگین جرائم کے مقدمات چلانے کے لئے اضافی اختیارات دیئے گئے۔ پھر اس قانون کو 1872 میں معمولی ترمیم کے ساتھ دوبارہ نافذ کیا گیا اور 1877 میں پختون خوا کے اضلاع میں اس قانون کو،،غازی ایکٹ،، کے طور پر نافذ کیا گیا۔ بعد میں افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن جس نے پشتون قبائل کو سرحد پار سے تقسیم کیا اور پشتونوں میں مزید قومی ہیجان کا سبب بنا ۔ مگر پھر بھی یہ ضابطہ برطانوی اور حکومتی حکمرانی کی پشتون مخالفت پر قابو پانے کے لئے ناکافی تھا۔ لہذا وقتا فوقتا اس میں نئی دفعات وترمیمات شامل کی جاتی رہی ۔ اس ضابطے نے اس کی موجودہ شکل بنیادی طور پر 1901 کے (FCR) فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے ذریعے لی۔
اس قانون نے مقامی حکومت کو قبائلی علاقوں سمیت سرحدی اضلاع اور برٹش بلوچستان میں آباد پختون بیلٹ سے ملحقہ علاقے جنمیں کوئٹہ پشین، لورالائی ، ژوب، سبی، اور چاغئی وغیرہ کے اضلاع شامل تھے کسی بھی علاقے میں مذکورہ ضابطے کی کسی بھی شق میں توسیع کرنے کی طاقت دی تھی۔ 1877 کے ضابطے میں متعدد جابرانہ دفعات شامل تھیں جنہیں بعدازاں کچھ ترامیم کے ساتھ ایف سی آر کا حصہ بنایا گیا تھا ان علاقوں کے لوگوں کی اجتماعی اور علاقائی ذمہ داریوں سے متعلق دفعات بھی اسمیں شامل کی گئی تھی جہاں یہ ضابطے متعارف کروائے گئے تھے۔ بعد میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے 1899 میں اس ریگولیشن میں تبدیلی کے لئے اپنی سفارشات کو 1899 میں پیش کیا۔ مذکورہ کمیٹی میں راولپنڈی ڈویژن کے اس وقت کے کمشنر ،سی ایل ٹپر ، اور کمشنر پشاور ڈویژن اے ایف ڈی کننگھم اور ایک اورقانون دان یل ، ای ڈبلیو پارکر ، بطورِممبران کے شامل تھے۔ مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں بعد ازاں ایف سی آر 1901 متعارف کرایا گیا سابقہ فاٹا کے علاقوں میں فرنگی کا راج انتھائی محدود تھا اور اس کیلئے 1879 میں خیبر ایجنسی 1895 میں ملاکنڈ ایجنسی 1895 میں جنوبی وزیرستان ایجنسی 1895 میں شمالی وزیرستان اور 1892 میں کرم ایجنسی بھی قائم کی گئی تھی ان ایجنسیوں کے ساتھ بھی ایف سی آر کے تحت نمٹا جاتا تھا باجوڑ کو ملاکنڈ ایجنسی کا حصہ بنایا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1956 میں پہلا آئین بننے کے بعد پختونخوا اور 1973 میں بلوچستان سے اس قانون کو ختم کیا گیا مگر سابقہ فاٹا کے ساتھ سلوک جوں کا توں رہا۔ ایف سی آر سے نجات کیلئے 1990 کے بعد ان علاقوں سے عوامی آواز اٹھنی شروع ہوئی جنھوں نے وقتاً فوقتاً مختلف کروٹیں لی اور بلآخر 25 مئی 2018 کو ان علاقوں کو اس بدنام زمانہ قانون سے نجات ملی۔ ایف سی آر کے خلاف پختونخوا کے نئے اضلاع میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں نے ایک لمبی جدوجھد کی ہے جنمیں ،لطیف اپریدی، نثار وزیر ،نثار مومند ، شیخ جھانزادہ، شھاب الدین خان ، فاتح رحمان ماموند، اخون زادہ چٹان، ھارون الرشید، قاضی عبد المنان، مولانا معراج الدین شہید، سالار احمد علی ،حاجی شاہ جی گل اپریدی ، گل افضل خان، حاجی لالی شاہ، تور لالی کاکا، مرحوم راحت یوسف، عبد المنان کاکاجی، اور بیشمار دوسرے معلوم ونامعلوم سیاسی کارکن ۔ ان سب کے ساتھ آج بات کرتے ہیں باجوڑ کے تھرکانڑی سلارزی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے باجوڑ کے ایک بھادر سپوت مرحوم صلاح الدین خان کی۔ صلاح الدین خان کو میں نے پہلی دفعہ 1997 میں پشاور نشتر ھال میں باجوڑ کی مقامی کمیونٹی کی ایک تنظیم ،باجوڑ یوتھ مومنٹ، کے حلف برداری کی تقریب میں دیکھا تھا اور اس تقریب میں اس نے مختصر خطاب بھی کیا تھا ۔ مرحوم پختونوں کے قومی مسائل سے گہری واقفیت رکھتے تھے ایک بیدار قوم پرست تھے سن دو ہزار میں جب اجمل خٹک نے نیشنل عوامی پارٹی بنائی تو اس میں بھی شامل رہے تھے۔ 2002 کے قومی اسمبلی کے الیکشن میں جب ہم ماموند میں شیخ جھانزادہ کا الیکشن کمپئن چلارہے تھے تو صلاح الدین خان بھی اس الکیشن میں حصہ لے رہا تھا ہمارے الیکشن آفس قریب ہی تھے اور روزانہ ملتے تھے انتھائی خوش اخلاق اور ہنس مکھ انسان تھے جبکہ اپنی تقاریر میں ایف سی آر کی بھرپور مخالفت کے ساتھ مراعات یافتہ طبقے کو بڑی دلیری کیساتھ جھنجھوڑتے تھے ۔ 2005 میں جب انکے بڑے بھائی شھاب الدین خان کو اسوقت کے پولٹیکل ایجنٹ نے ایف سی آر کے تحت ہری پور جیل بیجھ دیا انکی رہائی کیلئے صلاح الدین خان کی سربراہی میں عوامی احتجاج جاری تھا موت سے ایک دن قبل انکے ساتھ احتجاج کے دوران عطاء اللہ خان لالا اور شیخ جھانزادہ کے ہمراہ ملے اگلے ہی دن شیخ صاحب نے مجھے کال کیا غالباً ظہر کے بعد کا ٹائم تھا کہ ہم ہسپتال میں ہیں صلاح الدین خان کو ھارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ جانبر نہیں ہوسکے۔ صلاح الدین خان کے موت پر پورے باجوڑ میں انتھائی افسردگی تھی کیونکہ جوانی کی عمر میں ایک مقبول سیاسی کارکن کی موت بڑی غم کی خبر تھی ۔
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ۔
اے این کے مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن شیخ جھانزادہ نے صلاح الدین خان کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ۔
مرحوم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک تاریخی خاندان سے تعلق رکھتے تھے انتھائی ملنسار انسان تھے جب بھی مجھ سے ملتے انتھائی ادب واحترام کے ساتھ پیش آتے باجوڑ کے عوام میں انتھائی مقبول تھے اگر موت انھے مہلت دیتی تو مستقبل میں اپنے علاقے کی ترقی کیلئے بہت پرعزم تھے۔ سیاسی وقومی رہنما عطاء اللہ خان لالا نے کہا کہ صلاح الدین خان اپنے آپ کو خان نہیں سمجھتا تھا عوام کے ساتھ ایک عام پختون کی طرح میل جول رکھتا تھا جبکہ پختون قومیت کی بنیاد پر وہ ایک قوم پرست شخصیت تھے جنکو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا