حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نمائندے: اختیارات اور ترقیاتی فنڈز سے محرومی ، ایک سنگین مسئلہ ہے Home / لائف سٹائل /

قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نمائندے: اختیارات اور ترقیاتی فنڈز سے محرومی ، ایک سنگین مسئلہ ہے

قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نمائندے: اختیارات اور ترقیاتی فنڈز سے محرومی ، ایک سنگین مسئلہ ہے

تحریر: انورزادہ گلیار

پاکستان کے قبائلی اضلاع میں مقامی حکومت کا نظام ایک اہم پیش رفت تھا، جس کا مقصد عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مقامی سطح پر مسائل کے حل کو یقینی بنانا تھا۔ تاہم، چار سال گزرنے کے باوجود ان اضلاع کے بلدیاتی نمائندے اختیارات اور ترقیاتی فنڈز سے محروم ہیں۔ اس صورتِ حال نے نہ صرف مقامی حکومت کے نظام کو غیر مؤثر بنا دیا ہے بلکہ منتخب نمائندوں میں مایوسی اور عوام میں شدید بےچینی بھی پیدا کر دی ہے۔
قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے بعد وہاں بلدیاتی نظام کو متعارف کرایا گیا تاکہ علاقے کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جا سکیں۔2021 میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ یہ نظام عوامی مسائل کے حل میں مؤثر ثابت ہوگا۔ تاہم، چار سال گزرنے کے باوجود مقامی حکومتوں کو نہ تو اختیارات دیے گئے اور نہ ہی ترقیاتی فنڈز فراہم کیے گئے، جس کی وجہ سے بلدیاتی ادارے عملی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔
بلدیاتی نمائندوں کو ختیارات سے محرومی ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ کیونکہ بلدیاتی نظام کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ منتخب نمائندوں کو کتنے اختیارات حاصل ہیں۔ قبائلی اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کو قانون سازی، ترقیاتی منصوبوں کی منظوری اور ان کے نفاذ کے حوالے سے کسی قسم کے اختیارات نہیں دیے گئے۔ وہ صرف نام کے نمائندے ہیں، جبکہ عملی طور پر تمام فیصلے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کرتی ہے۔ اس اختیارات کی عدم فراہمی نے مقامی حکومتوں کو بے اثر بنا دیا ہے، اور عوامی مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔
ترقیاتی فنڈز کی عدم دستیابی سے بنیادی سہولیات کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کے بغیر کوئی بھی حکومت یا بلدیاتی ادارہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے مکمل نہیں کر سکتا۔ قبائلی اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے علاقے میں بنیادی سہولیات، جیسے سڑکیں، پانی، بجلی، صحت اور تعلیم کے شعبے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام اپنے منتخب نمائندوں سے توقع رکھتے تھے کہ وہ ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھائیں گے، مگر فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔اور اسی وجہ سے مایوسی اور احساسِ محرومی ایک اجتماعی مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ جب بلدیاتی نمائندے اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوتے ہیں تو عوام میں بےچینی پیدا ہوتی ہے۔ قبائلی اضلاع کے منتخب نمائندے اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں اور متعدد بار حکام سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ انہیں اختیارات اور ترقیاتی فنڈز فراہم کیے جائیں، مگر ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ دوسری جانب عوام کو بھی شدید مایوسی کا سامنا ہے، کیونکہ ان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ ایسے میں حکومت پر عوام کا اعتماد کمزور ہوتا جا رہا ہے، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
قبائلی اضلاع میں بلدیاتی نظام کی غیر مؤثر کارکردگی کے کئی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں:
چونکہ منتخب نمائندے اختیارات اور وسائل سے محروم ہیں، اس لیے عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔
ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں، جس سے علاقے کی مجموعی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔
لوگ حکومت سے مایوس ہو رہے ہیں، جس سے سماجی بےچینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر منتخب نمائندے غیر مؤثر ہوں گے تو عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے  حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر چند  اقدامات کریں  تاکہ قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نظام کو مؤثر بنایا جا سکے:
 بلدیاتی نمائندوں کو قانون سازی اور ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے اختیارات دیے جانی چاہیئے تاکہ وہ مؤثر انداز میں کام کر سکیں۔  بلدیاتی اداروں کو ان کا جائز ترقیاتی بجٹ دیا جانا چاہئیے تاکہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے مکمل کر سکیں۔ ضلعی انتظامیہ اور بلدیاتی نمائندوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا چاہئیے اور اختیارات کی تقسیم واضح کیا جانا چاہئیے تاکہ ضلعی انتظامیہ اور بلدیاتی نمائندے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔اور بلدیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے آئینی اور قانونی سطح پر مضبوط اقدامات کیے جانی چاہئیے 
قبائلی اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور ترقیاتی فنڈز نہ دینا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جو نہ صرف جمہوری نظام کو متاثر کر رہا ہے بلکہ عوام میں بھی شدید مایوسی اور بےچینی پیدا کر رہا ہے۔ اگر حکومت واقعی ان علاقوں میں ترقی اور استحکام چاہتی ہے، تو اسے فوری طور پر بلدیاتی نظام کو مؤثر بنانا ہوگا، تاکہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں اور علاقے کی مجموعی ترقی ممکن ہو سکے۔