انورزادہ گلیار
رمضان المبارک اسلامی سال کا سب سے بابرکت مہینہ ہے، جو رحمت، مغفرت اور بخشش کے پیغام کے ساتھ آتا ہے۔ اس مہینے میں مسلمان روزے، عبادات اور خیرات کے ذریعے روحانی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں، جبکہ معاشرے میں ضرورت مند افراد کی مدد کا جذبہ بھی عروج پر ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں مختلف فلاحی تنظیمیں اور صاحبِ استطاعت افراد غرباء اور نادار لوگوں کے لیے رمضان پیکجز تقسیم کرتے ہیں، جو صدقہ و خیرات کی عملی صورت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ہم آہنگی اور اخوت کے فروغ کا بھی ذریعہ ہیں۔ یہ پیکجز عام طور پر راشن، کھانے پینے کی اشیاء، نقدی اور دیگر ضروریاتِ زندگی پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کا مقصد معاشی مشکلات کا شکار خاندانوں کو رمضان کے دوران بنیادی ضروریات کی فکر سے آزاد رکھنا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں فلاحی تنظیمیں اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، اخوت، الخدمت فاؤنڈیشن اور چھیپا جیسی تنظیمیں ہر سال لاکھوں مستحق خاندانوں کو رمضان راشن فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح، باجوڑ میں سی وی این، جبران ویلفیئر فاؤنڈیشن، ذاہد جان خیریہ بسنٹ، خیر خواہ ویلفیئر فاؤنڈیشن، انجمن بحالی معذوران اور دیگر فلاحی ادارے مقامی سطح پر سرگرم ہیں۔ یہ تنظیمیں مستحقین کی نشاندہی، راشن کی خریداری، پیکنگ اور تقسیم جیسے تمام مراحل منظم طریقے سے انجام دیتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند افراد مستفید ہو سکیں۔ فلاحی تنظیموں کے علاوہ مخیر حضرات اور کاروباری شخصیات بھی ذاتی طور پر یا کمیونٹی گروپس کے ذریعے مستحق افراد میں رمضان پیکجز تقسیم کرتے ہیں۔ باجوڑ میں چیمبر آف کامرس کے بانی حاجی لعلی شاہ پختونیار بھی ہر سال سینکڑوں پیکجز غرباء میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسی سال انہوں نے پانچ سو خاندانوں کے لیے رمضان پیکج تیار کرکے مقامی فلاحی تنظیموں کے ذریعے تقسیم کیا۔ کچھ افراد اپنے محلوں، گاؤں یا دفاتر کے اردگرد ضرورت مندوں کو راشن فراہم کرتے ہیں، جبکہ بعض مساجد اور مدارس کے ذریعے امداد پہنچاتے ہیں۔
اگرچہ یہ اقدامات قابلِ تحسین ہیں، لیکن اس عمل میں کچھ چیلنجز بھی درپیش ہوتے ہیں۔ بعض اوقات حقیقی مستحقین تک امداد نہیں پہنچ پاتی، اور خاص طور پر سفید پوش افراد جو خود اپنی ضرورت کسی پر ظاہر نہیں کرتے، ایسے پیکجز سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان مستحقین تک امداد پہنچانے کے لیے ایک مؤثر نظام ترتیب دینا ضروری ہے۔ تنظیمیں رجسٹریشن سسٹم، قومی شناختی کارڈ کی تصدیق اور مقامی کمیٹیوں کی مدد سے مستحقین کی بہتر نشاندہی کر سکتی ہیں۔ بعض فلاحی ادارے اور افراد رمضان پیکجز کی تقسیم میں مکمل شفافیت برقرار نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے امدادی اشیاء مخصوص افراد تک محدود رہ جاتی ہیں۔ اس کا حل بہتر نگرانی اور حساب کتاب کے شفاف نظام کے ذریعے ممکن ہے۔
یہ فلاحی اقدامات مثبت معاشرتی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ عمل صاحبِ استطاعت افراد کو معاشرے کے محروم طبقے کے قریب لاتا ہے، جس سے مساوات اور ہمدردی کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ منظم طریقے سے امداد کی تقسیم غریب اور نادار افراد کی عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بچاتی ہے۔ بعض تنظیمیں مستحقین کے گھروں تک راشن پہنچاتی ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریات عزت و وقار کے ساتھ پوری کر سکیں۔ رمضان پیکجز غریب طبقے کو مہینے بھر کے لیے معاشی پریشانی سے آزاد کر دیتے ہیں، جس سے وہ رمضان کی عبادات پر بہتر انداز میں توجہ دے سکتے ہیں۔
یہ امدادی سرگرمیاں ایک خوش آئند روایت ہیں، جو معاشرتی ہمدردی اور اسلامی تعلیمات کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ تاہم، اس عمل کو مزید مؤثر، شفاف اور منظم بنانے کے لیے مستحقین کی درست نشاندہی، تقسیم کے نظام میں بہتری اور بدنظمی کے خاتمے جیسے اقدامات ضروری ہیں۔ اگر یہ فلاحی کام بہتر منصوبہ بندی سے انجام دیے جائیں تو لاکھوں ضرورت مندوں کی مدد ممکن ہو سکتی ہے اور معاشرے میں فلاح و بہبود کی ایک مضبوط روایت قائم کی جا سکتی ہے