مشترم خان خپلواک
قبائیلی اضلاع آمن و امان مہنگائی ، بےروزگاری اور نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال کے باعث لوگوں کی روزمرہ زندگی میں مزید مشکلات جنم لے رہی ہے ۔بے روزگاری کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہی ہے ۔ مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے جسکے نتیجے میں زیادہ تعداد میں بچے سکول چھوڑ گئے ہیں۔ یہی بچے باآسانی بے راہ روی کا شکار ہو کر منشیات اور غیر قانونی سرگرمیوں کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ضلع مہمند کے ہر علاقے میں منشیات اور خصوصا ائس جیسے مضر اور جان لیوا مواد کی کھلے عام فروخت اور استعمال بھی ایک لمحہ فکریہ اور پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے اور نہ منشیات کے کاروبار کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کاروبار میں سرکاری اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تاویلات ہورہی ہے۔ عوامی حلقوں کے مطابق منشیات فروخت پکڑے جاتے ہیں مگر ان کو ماہواری پر سمجھوتہ کرنے کے بعد چھوڑ دیا جات ہے جبکہ بڑے سطح پر منشیات کا کاروبار کرنے والوں پر کوئئ ہاتھ نہیں ڈالتا جو کہ فساد کی اصل جڑ ہے اگر یو کہا جائے کہ ان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے تو بجا ہوگا کیونکہ منشیات فروشوں کو سرکاری اہلکاروں کی معاونت حاصل ہونے کا انکشاف اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب تک بڑے منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی تو یہاں کے سینکڑوں بے روزگار نوجوان لالچ میں اکر ان کے الہ کار بنیں گے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ کھلے عام منشیات فروشی پختونوں کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت ہورہی ہے جس کا مقصد قبائلی عوام کو تعلیم اور روزگار سے دانستہ محروم رکھ کر انکو لالچ دے کر اپنے فائدے اور علاقے کی بدامنی کو پروان چڑھانے کےلئے استعمال کیا جاسکیں۔ بے روزگاری اور غربت انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے جس کا فایدہ اٹھا کر ان سے کوئی بھی کام لینا اسان ہوتا ہے۔پختون علاقوں میں بدامنی پہلے سے مسلط کی گئی ہے بدامنی ، بے روزگاری اور نوجوانوں کو سکول، تعلیم سے دور رکھنا در حقیقت میں نسل کشی کے مترادف ہے۔ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت قبائیلی علاقے ترقی،تعلیم و صحت اور دوسرے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، آگر یہاں پر چند بہترین تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں تو ان میں داخلہ لینا مقامی بچوں کے لئے ناممکن ہے کیونکہ میرٹ میں وہ کبھی نہیں آسکتے جبکہ ان میں اثر ورسوخ رکھنے والے والدین کے بچوں کو داخلے مل جاتے ہیں جس سے علاقے میں محرومی پائی جارہی ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق کہ آگر بے روزگاری و مہنگائی اور آمن و امان پر قابو نہ پایا گیا تو بدامنی میں مزید اِضافہ ہوگا اور ملک کے دوسرے علاقے باآسانی ان کے شکار ہوں گے۔ تعلیم کے بغیر نوجواں طبقہ بے راہ روی کا شکار ہونگیں اور ابھی بھی ہر علاقے میں چوری اور راہزنی کی وارداتوں میں کثرت سے اِضافہ ہوا ہے ان کی بڑی وجہ نوجوانوں کی بےروزگاری، آئس اور دوسرے منشیات کا استعمال اور مہنگائی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی بے راہروی معاشرے کے لئے ناسور بن رہی ہے جس کے مضر اثرات سے کوئی نہیں بچے گا ۔ دوسری جانب پچھلے چودہ سالوں سے مسلسل خیبرپختونخوا میں ایک پارٹی کو حکومت مل جاتی ہے لیکن ان چودہ سالوں میں قبائلی اضلاع میں ترقی کا کوئی بڑا منصوبہ نظر نہیں آ رہا ہے جبکہ دعووں میں سب سے زیادہ منصوبے اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ نگران حکومت نے کچھ منصوبوں پر کام کا آغاز کیا تھا اور صوبے کی معیشت میں بہتری لانے کے لئے مختلف علاقوں میں ان ترقیاتی منصوبوں پر کام بھی شروع ہو گیا تھا اور بے روزگار نوجوانوں کو ان منصوبوں میں بھرتی کیا گیا لیکن کے پی کے کی موجودہ حکومت نے وہ سارے منصوبے ختم کرکے نگران حکومت کی بھرتیاں بھی منسوخ کردی ۔خیبر پختونخوا میں حکومت ملنے کے بعد ہر ہفتہ ایک احتجاجی مارچ منایا جاتا ہے اور صوبے کی وسائل کو اپنا حق سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جس سے صوبے کی معاشی ترقی کا پہیہ رک گیا ہے جس نے ہمارے صوبے کو کھربوں روپوں کا مقروض بنا دیا۔ان سب عوامل نے عوام کو نشے کی دوائی کھانے کا عادی بنادیا ہے جو کہ ہماری زوال کا باعث بن رہا ہے۔پچھلے ستر سال سے ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم قبائلی علاقوں میں امن اور ترقی کیلئے تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر سمیت منشیات کے خلاف کاروائی کی اشد ضرورت ہے تاکہ دہائیوں سے یہاں کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کیا جاسکیں۔