غنی الرحمن
راولپنڈی کی پررونق سڑکوں پر ایک اور چراغ بے دردی سے گل کر دیا گیا۔ گزشتہ شب، 30 سالہ نوجوان تاجر امین اللہ کو نامعلوم مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کر کے شہید کر دیا جب وہ اپنی دکان بند کر کے گھر لوٹ رہے تھے۔ یہ المناک واقعہ نہ صرف ان کے اہلِ خانہ بلکہ پوری تاجر برادری اور باجوڑ کے عوام کے لیے قیامت سے کم نہیں۔
امین اللہ شہید کا تعلق باجوڑ سے تھا، لیکن انہوں نے کم عمری میں محنت کا سفر راولپنڈی سے شروع کیا۔ ایک محنتی، دیانتدار اور نیک سیرت نوجوان، جو زندگی کو مثبت انداز سے جینے کا عزم لیے روزگار کے لیے کوشاں تھا۔ وہ میڈیکل کالج میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے اور ایک باوقار مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے، مگر درندہ صفت قاتلوں نے ان خوابوں کو خون میں لت پت کر دیا۔
امین اللہ کوکیامعلوم تھاکہ چند درندہ صفت افراد ان کے تعاقب میں ہیں۔ جنہوں نے ان پر فائرنگ کی، اور ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ امین اللہ کی ناگہانی موت نے نہ صرف ان کے گھرانے بلکہ پوری برادری کو غم کی چادر میں لپیٹ دیا۔
امین اللہ شہید کے پسماندگان میں ان کی جواں سالہ بیوہ اور تین سالہ معصوم بیٹی عنایا اوربیماراور بزرگ والدہ شامل ہیں، کمسن عنایا جو اب اپنے والد کی شفقت سے محروم ہو چکی ہے۔ شہید کی بیمار والدہ جنہیں اپنے تین بیٹوں میں سب سے زیادہ محبت امین اللہ سے تھی، دل گرفتہ ہو کر کہتی ہیں کہ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، بہت پیارا تھا، جو گھر آتے ہی اپنی بیٹی کو گود میں اٹھاتا، اور اسے دکان سے ٹافیاں لے کر دیتا۔
گزشتہ شب معصوم عنایا جب اپنے والد کو یاد کرکے روتی رہی تو پورا گھر آہوں اور سسکیوں سے گونج اٹھا۔ اہل محلہ، تاجر برادری، دوست احباب اور رشتہ دار سب ہی امین اللہ کی ناگہانی موت پر شدید رنجیدہ ہیں۔ ان کے بھائی حاجی سردار خان اور حاجی احسان اللہ بھی بے حد غمزدہ ہیں۔
شہید امین اللہ کی موت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ شہر کی گلیوں میں پھیلا یہ خوف کہ معصوم، بے گناہ اور محنتی لوگ بھی اب غیر محفوظ ہیں، شہریوں کے دلوں میں اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ اہل خانہ اور برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ کسی اور کا چمن یوں نہ اجڑے۔