حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ – امن و استحکام کے لیے خطرہ Home / بلاگز /

پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ – امن و استحکام کے لیے خطرہ

انورزادہ گلیار

پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ – امن و استحکام کے لیے خطرہ


پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملکی امن و امان کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ماضی میں کئی ممتاز علما کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، جن کے قتل کے پیچھے مختلف وجوہات کارفرما ہیں، جن میں فرقہ واریت، شدت پسندی، ذاتی دشمنیاں اور بعض ریاست مخالف عناصر کی سازشیں شامل ہیں۔


علمائے کرام ہمیشہ سے ایک مؤثر سماجی اور مذہبی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ وہ دینی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح، قانون سازی میں رہنمائی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ مدارس میں لاکھوں طلبہ ان سے فیض حاصل کرتے ہیں، اور وہ اسلامی نظریے کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے قتل سے نہ صرف دینی طبقے میں اضطراب پیدا ہوتا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی بے یقینی کی فضا جنم لیتی ہے، جو قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔


پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔ فرقہ واریت ملک میں ایک دیرینہ مسئلہ ہے، اور بعض عناصر مخصوص مکاتبِ فکر کے علما کو نشانہ بنا کر ان اختلافات کو مزید ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہشت گرد گروہ اور انتہا پسند تنظیمیں بھی مخصوص نظریات کے حامل علمائے کرام کو اپنے اہداف بناتی ہیں، کیونکہ وہ ان کی شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ بعض کیسز میں علمائے کرام کو ذاتی دشمنی یا مقامی تنازعات کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، جسے بعض اوقات مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان دشمن قوتیں بھی ملک میں مذہبی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے علما کے قتل کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں تاکہ فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی جا سکے۔
گزشتہ چند سالوں میں کراچی، لاہور، پشاور اور دیگر شہروں میں کئی ممتاز علما کو شہید کیا گیا ہے۔ 

مولانا سمیع الحق، ان کے فرزند مولانا حامد الحق حقانی اور حال ہی میں مفتی منیر شاکر کی شہادت جیسے واقعات نے نہ صرف علما برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا بلکہ عوام میں بھی خوف و ہراس پھیلا دیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں بعض مدارس اور مساجد میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی، مگر بدقسمتی سے اس مسئلے کا مستقل حل ابھی تک نہیں نکالا جا سکا۔


حکومت اور سیکیورٹی اداروں پر لازم ہے کہ وہ علمائے کرام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور علما کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ حساس علاقوں میں علمائے کرام کے لیے سیکیورٹی انتظامات کو مزید مؤثر بنایا جائے اور مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔


علمائے کرام اور عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسے عناصر سے ہوشیار رہیں جو مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں اعتدال پسندی کو فروغ دیں اور عوام کو متحد رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے بھائی چارے اور یکجہتی کو ترجیح دیں تاکہ دشمن عناصر کو اپنے مذموم عزائم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔


پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ ایک نہایت تشویشناک معاملہ ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اس مسئلے کا سدباب نہ کیا گیا تو یہ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے سکتا ہے، جو ملکی استحکام اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت، سیکیورٹی ادارے، علما اور عوام سب کو مل کر اس فتنے کے خلاف کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں مذہبی رواداری اور امن و امان کا قیام ممکن ہو سکے۔