سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
پشاور کی گلیاں، چوک یادگار کے گردونواح کی تنگ راہیں، اور قذافی بلڈنگ کی وہ تیسری منزل جہاں 2002 میں پہلی بار مفتی منیر شاکر سے ملاقات ہوئی، سب کچھ آج بھی آنکھوں کے سامنے کسی دھندلی مگر ناقابلِ فراموش تصویر کی مانند موجود ہے۔ میں اس وقت چند مقامی اخبارات کے لیے رپورٹنگ کر رہا تھا، اور اسی سلسلے میں کالعدم سپاہِ صحابہ کے ایک اجلاس کی خبر لینے وہاں پہنچا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب قلم اور کیمرہ میرے لیے نئے ہتھیار تھے، اور سچ کی تلاش میرا مقصد۔ اسی مجلس میں پہلی بار ایک گمبھیر شخصیت نظر آئی، سیاہ گھنی داڑھی، لمبے زلف، اور مقامی روایتی پکول سر پر رکھے ایک شخص، جو دیکھنے میں عام لگتا تھا مگر اس کی گفتگو میں غیرمعمولی گہرائی تھی۔ یہ مفتی منیر شاکر تھے۔ اس وقت وہ شہرت کی بلندیوں پر نہیں پہنچے تھے، باڑہ کی ایک مسجد میں خطیب اور کالعدم سپاہِ صحابہ کے مقامی رہنما تھے۔
الفاظ جو آج بھی روح میں اترتے ہیں
اس روز ان سے جو گفتگو ہوئی، وہ آج بھی ذہن کے نہاں خانے میں گونجتی ہے۔ وہ علم و استدلال کے حامل شخص تھے۔ بات دلیل سے کرتے، ان کے الفاظ میں ایک ایسا وزن ہوتا جو دل و دماغ کو جکڑ لیتا۔ حالات پر ان کی گہری نظر تھی، اور وہ اسلام کی سربلندی کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار نظر آتے تھے۔ ان کے ساتھ اس اجلاس میں پشاور کے ایک اور عظیم سپوت، شہید اسلم فاروقی بھی موجود تھے۔
ہم نے کئی موضوعات پر گفتگو کی، دین کے غلبے سے لے کر امت کی زبوں حالی تک۔ وہ جذباتی نہیں بلکہ فکری لحاظ سے مضبوط تھے۔ ان کے چہرے پر ایسا سکون تھا جو صرف وہی لوگ رکھتے ہیں جو اپنے مقصد میں مخلص ہوتے ہیں۔
وقت نے ایک اور چراغ گل کر دیا
یہ پہلی ملاقات تھی، مگر کون جانتا تھا کہ ایک دن مفتی منیر شاکر بھی اس راہ میں جان کا نذرانہ پیش کر دیں گے۔ وہ دھماکے کی بھینٹ چڑھا دیے گئے، ظالموں نے ایک اور حق گو کی زبان ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی۔ مگر ان کے الفاظ، ان کے خیالات اور ان کی فکر آج بھی زندہ ہے۔
میں ان کے ساتھ مسلکی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود انہیں ایک دلیر، بہادر عالم مانتا ہوں اور ان کی شہادت کو امت کا نقصان سمجھتا ہوں۔ عالم کسی بھی مسلک کا ہو، وہ امت کا سرمایہ ہوتا ہے۔ ان کی بہیمانہ شہادت پر نوحہ کناں ہونا میری فطرت ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ خود علماء کی سیکیورٹی مضبوط کریں اور علماء کے پے درپے قتلِ ناحق کا راستہ روکیں۔
مفتی منیر شاکر آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، مگر وہ تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی فکر، ان کی قربانی، اور ان کی شہادت آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اللہ انہیں جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین