حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
لیبیا کشتی حادثہ: ایک خواب جو سمندر کی لہروں میں دفن ہوگیا Home / بلاگز /

لیبیا کشتی حادثہ: ایک خواب جو سمندر کی لہروں میں دفن ہوگیا

انورزادہ گلیار

لیبیا کشتی حادثہ: ایک خواب جو سمندر کی لہروں میں دفن ہوگیا

حالات کی سختی، معاشی مشکلات اور بہتر مستقبل کی خواہش اکثر نوجوانوں کو ایسے راستوں پر ڈال دیتی ہے جو نہ صرف غیر یقینی سے بھرے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات زندگی کے چراغ کو بھی گل کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک المناک واقعہ حال ہی میں پیش آیا، جب لیبیا کے ساحل کے قریب ایک کشتی سمندر کی بے رحم موجوں کا شکار ہوگئی۔ اس حادثے میں 63 پاکستانی بھی شامل تھے، جن میں باجوڑ کے سراج الدین ولد اقبال محمد بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔وہ غربت سے فرار ہونے کی کوشش کرتا  لیکن موت کے شکنجے میں چلا گیا ۔
سراج الدین کا تعلق باجوڑ کے علاقے صدیق آباد پھاٹک سے تھا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور پولٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکا تھا۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے باوجود، ملک میں موجود بے روزگاری اور محدود مواقع نے اسے بیرون ملک روزگار تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ وہ گزشتہ تین سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا تھا، لیکن شاید وہ اپنی زندگی کے حالات سے مطمئن نہیں تھا۔ یوں، بہتر مستقبل کی امید میں اس نے یورپ جانے کا ایک اور بڑا فیصلہ کیا۔
مگر، اس بار اس نے اپنی اس مہم جوئی میں اپنے والدین کو شریک نہیں کیا۔ اہلِ خانہ کو اطلاع دیے بغیر، وہ لیبیا سے بذریعہ سمندر اٹلی جانے کے لیے نکلا۔ اسے شاید امید تھی کہ وہ وہاں پہنچ کر اپنے خوابوں کی تعبیر پائے گا اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے ایک بہتر زندگی فراہم کرے گا، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
لیبیا سے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والے اکثر افراد انسانی اسمگلروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یہ اسمگلر لوگوں سے بھاری رقوم وصول کرکے انہیں خستہ حال کشتیوں میں بٹھا دیتے ہیں، جہاں نہ زندگی کی کوئی ضمانت ہوتی ہے، نہ کسی مدد کی امید۔ سراج الدین بھی انہی بدنصیب مسافروں میں شامل تھا، جو ایک غیر محفوظ کشتی میں یورپ کی طرف رواں دواں تھا۔ بدقسمتی سے، یہ کشتی سمندر کی تند و تیز لہروں کے سامنے بے بس ہوگئی اور ڈوب گئی۔
پچھلے 15 دنوں سے سراج الدین کا اپنے اہلِ خانہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا، اور جب خبر ملی، تو وہ موت کی خبر تھی۔
سراج الدین کی موت کی خبر جب اس کے گھر پہنچی، تو پورے علاقے میں سوگ کا عالم چھا گیا۔ ایک ہنستا بستا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ والدین، بہن بھائی، رشتہ دار سب غم سے نڈھال ہیں، ہر آنکھ اشکبار ہے۔ فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے اور اہلِ خانہ بے بسی اور صدمے کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
مگر یہ  سلسلہ کب رُکے گا؟
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کوئی نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلا گیا ہو۔ ہر سال درجنوں پاکستانی نوجوان غیر قانونی ہجرت کے دوران اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں ملک میں بے روزگاری، غربت، اور غیر مساوی معاشی مواقع شامل ہیں۔ اگر پاکستان میں نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں، تو شاید وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر غیر قانونی ہجرت جیسے خطرناک فیصلے نہ کریں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان وجوہات کو ختم کرنے کے لیے مؤثر پالیسیز مرتب کرے، تاکہ ہمارے نوجوان محفوظ راستے اختیار کریں اور اپنے ہی ملک میں خوشحال زندگی گزار سکیں۔ بصورتِ دیگر، یہ سلسلہ چلتا رہے گا، اور نہ جانے کتنے مزید سراج الدین سمندر کی بے رحم لہروں میں دفن ہو جائیں گے۔