حسبان میڈیا - Hasban Media Logo
قلم، قربانی اور خاموش فریاد: قبائلی صحافیوں کی جدوجہد اور صحافت کا عالمی دن Home / بلاگز /

قلم، قربانی اور خاموش فریاد: قبائلی صحافیوں کی جدوجہد اور صحافت کا عالمی دن

انورزادہ گلیار

قلم، قربانی اور خاموش فریاد: قبائلی صحافیوں کی جدوجہد اور صحافت کا عالمی دن

ہر سال 3 مئی کو دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ آزاد، غیر جانب دار اور ذمہ دار صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد اور اس کی روح ہے۔ یہ دن نہ صرف آزادیٔ اظہار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ان بے لوث صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا موقع بھی ہے جنہوں نے سچائی کی خاطر قید و بند، دباؤ، معاشی محرومی اور حتیٰ کہ جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
پاکستان میں اگرچہ صحافت ہمیشہ سے ایک چیلنج زدہ پیشہ رہی ہے، مگر خیبرپختونخوا اور خصوصاً سابقہ فاٹا کے قبائلی اضلاع میں یہ محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک بے آواز جہاد بن چکی ہے۔ ان علاقوں میں صحافت کا مطلب ہے—بغیر زر، بغیر زَر، اور بغیر زرہ کے میدان میں اترنا۔
یہاں کے صحافی محدود وسائل، مسلسل خطرات اور ریاستی بے اعتنائی کے باوجود سچ کی مشعل تھامے کھڑے ہیں۔ خاص طور پر 2006 سے 2014 کے دوران جب پورا خطہ خودکش دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، اور عسکریت پسندی کی لپیٹ میں تھا، قبائلی صحافی وہ واحد آواز تھے جو نہ صرف حقائق دنیا تک پہنچا رہے تھے بلکہ مقامی آبادی کی ترجمانی بھی کر رہے تھے—وہ بھی بغیر کسی حفاظتی ڈھال یا ادارہ جاتی پشت پناہی کے۔
بدقسمتی سے، ریاستی اور قومی سطح پر ان فرنٹ لائن صحافیوں کو وہ مقام اور تحفظ کبھی نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔ بیشتر صحافی یا تو بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں یا انہیں اتنا معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے جو ان کے بنیادی اخراجات تک پورے نہیں کر پاتا۔
سفر، انٹرنیٹ، ویڈیو کوریج، اور دیگر صحافتی تقاضے—یہ سب کچھ انہیں اپنی جیب سے پورا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب، قومی میڈیا ہاؤسز میں ان کی رپورٹس یا تو نظرانداز کر دی جاتی ہیں یا اس قدر ایڈٹ کر دی جاتی ہیں کہ ان کا اثر ہی باقی نہیں رہتا۔
ضم شدہ اضلاع میں پریس کلبز کی کمی، رجسٹریشن کے مسائل، اور قانونی تحفظ کی عدم موجودگی نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ان پر ایک طرف عسکریت پسند گروہوں کا دباؤ رہتا ہے، تو دوسری طرف بعض اوقات ریاستی ادارے بھی ان سے مخصوص بیانیے کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر وہ غیر جانب دار رہیں، تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے—جس میں دھمکیاں، گرفتاریاں، اور حتیٰ کہ تشدد بھی شامل ہے۔
لیکن اسی تاریکی میں کچھ روشن چہرے بھی جگمگاتے ہیں۔ ڈاکٹر نور حکیم، ابراہیم جان، مکرم خان عاطف، حیات اللہ، اللہ نور، محبوب شاہ، خلیل جبران اور دیگر کئی قبائلی صحافیوں نے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران شہادت کا جام نوش کیا۔ ان کی قربانیاں صرف قبائلی نہیں بلکہ پاکستانی صحافت کی تاریخ کا روشن ترین باب ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج ان شہید صحافیوں کے اہل خانہ اور بچے کسمپرسی، محرومی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جن کی طرف ریاست نے کبھی مڑ کر نہ دیکھا۔
آج جب دنیا بھر میں صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے تقریبات، سیمینارز اور بیانات کا شور ہے، تو ضروری ہے کہ ہم ان گمنام، غیر محفوظ، مگر غیر معمولی صحافیوں کو بھی یاد رکھیں جو دباؤ کی چکی میں پس کر بھی سچائی کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔
یہ صرف ان کی نہیں، ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کے لیے آواز اٹھائیں۔ حکومتِ پاکستان، صحافتی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قبائلی صحافیوں کے تحفظ، تربیت، قانونی مدد اور باعزت روزگار کے لیے ٹھوس، مؤثر اور پائیدار اقدامات کریں، تاکہ پاکستان میں صحافت نہ صرف آزاد بلکہ محفوظ، باوقار اور عوام کی سچی آواز بن سکے